محمد امین میر
محض ایک اندراج نہیں، حق کا ثبوت ہے۔ہندوستان کے زرعی و ریونیو نظام میں بعض اصطلاحات بظاہر معمولی دکھائی دیتی ہیں، لیکن ان کے اندر قانونی اور انتظامی طاقت پوشیدہ ہوتی ہے۔ جموں و کشمیر میں ایسی ہی ایک اصطلاح ہے ’’صحت کشت‘‘۔ اردو فارسی ریونیو لغت میں اس کا مطلب ہے، ’’درست کاشت‘‘۔ یہ لفظ اگرچہ محض گرداوری یعنی فصلی معائنے کے رجسٹر میں ایک سطر کے طور پر نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت یہ کاشتکار کے حق ملکیت، بے دخلی سے تحفظ، زمین کی تبدیلی ملکیت اور آئندہ میوٹیشن کی بنیاد بنتی ہے۔جموں و کشمیر میں جہاں زمین صرف اقتصادی اثاثہ نہیں بلکہ شناخت، وراثت اور بقا کی علامت ہے، وہاں صحت کشت جیسا ایک خاموش اندراج اس بات کا قانونی اعلان ہوتا ہے کہ زمین پر اصل قبضہ کس کے پاس ہے،کاشت کرنے والے کے یا محض کاغذی مالک کے۔
جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے بعد جب مقامی قوانین کو قومی قوانین سے ہم آہنگ کیا گیا، تو یہ خاموش اندراج اب بھرپور قانونی جائزے کا تقاضا کرتا ہے۔
صحت کشت یا صحت اندراج کیا ہے؟’’صحت کشت‘‘ ایک ریونیو اصطلاح ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ فلاں زمین کو مخصوص فصل کے موسم میں واقعی ایک خاص شخص نے کاشت کیا ہے اور یہ مشاہدہ موقع پر موجود پٹواری نے خود کیا ہے۔ صحت اندراج کا مطلب ہے کہ یہ اندراج محض سنی سنائی بات پر نہیں بلکہ تصدیق شدہ اور معتبر طریقے سے کیا گیا ہے۔عام زبان میں، صحت کشت وہ سچ ہے جو میدان میں لکھا جاتا ہے، رجسٹر میں نہیں۔ یہ اکثر غریب کسانوں کے لیے واحد ثبوت ہوتا ہے کہ وہ زمین کے حقیقی قابض ہیں،خواہ مالکان غائب ہوں یا قانونی حق کسی اور کے نام ہو۔
ریونیو قوانین میں قانونی حیثیت : اگرچہ جموں و کشمیر کے لینڈ ریونیو ایکٹ اور اسٹینڈنگ آرڈرز میں صحت کشت کے لیے علیحدہ دفعہ موجود نہیں، مگر یہ اصطلاح زمینی سطح پر انتظامی اور قانونی لحاظ سے رائج ہے۔
کلیدی قانونی حوالہ جات:دفعہ 21 لینڈ ریونیو ایکٹ کے مطابق، زمین کے استعمال کا باقاعدہ معائنہ اور اندراج لازمی ہے۔اسٹینڈنگ آرڈرز 10، 22 اور 23-A گرداوری اور میوٹیشن کے عمل کو ضابطے میں لاتے ہیں۔جموں و کشمیر زرعی اصلاحات ایکٹ 1976 میں خریف 1971 کی گرداوری کو بنیاد بنا کر ملکیت کی تبدیلی ہوئی، جس میں صحت کشت فیصلہ کن عنصر تھا۔متعدد عدالتی فیصلے صحت کشت کو مستقل اندراج کی صورت میں زمین پر قبضے کا prima facie (ظاہری طور پر تسلیم شدہ) ثبوت مانتے ہیں۔
زرعی اصلاحات اور 1971 کا تاریخی معیار: 1976 کے زرعی اصلاحات ایکٹ نے جموں و کشمیر میں زمین داری کے ڈھانچے کو یکسر بدل دیا۔ دفعہ 4 کے تحت، جو بھی کسان زمین پر کاشت کر رہا تھا، اسے زمین کی ملکیت دی جانی تھی۔ لیکن اصلی کسان کی شناخت کے لیے ایک مستند ثبوت درکار تھا،جسے حکومت نے خریف 1971 کی گرداوری قرار دیا۔یہیں صحت کشت فیصلہ کن ثبوت کے طور پر سامنے آیا۔ پٹواری کی جانب سے 1971 میں کیا گیا ایک اندراج کسی غریب کسان کے لیے ملکیتی حق بن گیا۔ عارضی مزدور، قانونی وارث بن گیا۔لیکن اسی پر انحصار کے سبب بہت سی ناانصافیاں بھی ہوئیں۔جہاں اندراج غلط ہوا یا چھوڑ دیا گیا، وہاں اصل کسان زمین سے محروم ہوااور جہاں جعلی اندراج ہوا، وہاں مقدمات، زمین ہتھیانے اور بدعنوانی کا بازار گرم ہو گیا۔
آج کا بحران: انصاف کا آلہ یا بے دخلی کا ہتھیار؟بدقسمتی سے، آج صحت کشت جموں و کشمیر کے ریونیو نظام میں اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔
۱۔ ڈیسک بیسڈ گرداوری: بیشتر پٹواری زمین پر جائے بغیر زبانی بیانات کی بنیاد پر صحت کشت اندراج کرتے ہیں۔
۲۔ جعلی اور اثر و رسوخ والے اندراجات: کوئی تصدیقی نظام نہ ہونے کے سبب بااثر افراد جعلی اندراج کروا کر زمین پر قبضے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
۳۔ زمینی حقیقت سے تضاد:جنوبی کشمیراننت ناگ، کولگام، شوپیاں، پلوامہ ،میں ہزاروں کسان حیران ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ کسی اور کا نام درج ہے، جو کبھی زمین پر آیا ہی نہیں۔
۴۔ ادھورا اور ناقابلِ رسائی ریکارڈ 1980 اور 1990 کی گرداوری اندراجات اب یا تو غائب ہیں یا آدھی ادھوری ڈیجیٹائزیشن کی وجہ سے دستیاب نہیں۔
۵۔ تتیما شجرہ سے عدم مطابقت: گرداوری اندراج اکثر تتیما شجرہ (ذیلی نقشہ جات) سے میل نہیں کھاتے، جس سے تنازعات کی صورت میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
عدلیہ کا موقف: خاموش لیکن مؤثر آواز۔عدالتوں نے صحّت کشت کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا ہے مگر احتیاط کی بھی ہدایت دی ہے۔
غلام رسول وانی بنام ریاست (2012) میں ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ مسلسل اور متواتر صحّت کشت اندراجات زمین پر قانونی قبضے کا ثبوت ہیں، بشرطیکہ ان کی تردید نہ ہو۔
جسٹس حسنائن مسعودی (ر) نے اسے کسان کی ’’جمہوری طور پر خاموش ترین آواز‘‘ قرار دیا تھا۔تاہم عدالتیں ثبوت کے لیے آبپاشی کے ریکارڈ، کرایہ کی رسیدیں یا گواہوں کی شہادت کی بھی متقاضی رہی ہیں۔
اصلاحات کی فوری ضرورت: اگر صحت کشت کو انصاف کا مؤثر ذریعہ بنانا ہے، تو درج ذیل اصلاحات ناگزیر ہیں۔
۱۔ GPS سے تصدیق شدہ معائنہ: ہر خریف اور ربیع میں پٹواری GPS موبائل ایپ کے ذریعے زمین کی تصویری تصدیق کرے۔
۲۔ عوامی نوٹس اور اعتراض کی مہلت: اندراج سے قبل 15 دن کا نوٹس جاری ہو، تاکہ کوئی اعتراض درج کرا سکے۔
۳۔ ڈیجیٹل نقشے سے ربط:صحت کشت کو تتیما شجرہ اور جیو اسپیشل پلیٹ فارمز سے منسلک کیا جائے۔
۴۔ گاؤں سطح پر آڈٹ کمیٹیاں: لنبردار، چوکیدار، پنچایت ممبران اور مقامی کسانوں پر مشتمل کمیٹیاں گرداوری کی جانچ کریں۔
۵۔ قانونی ترامیم: ریونیو مینول اور اسٹینڈنگ آرڈرز میں ترمیم کر کے موبائل ایپ کے ذریعے کی گئی ای۔گرداوری کو قانونی حیثیت دی جائے۔
کاشتکار کا آخری قانونی سہارا : آج کے کشمیر میں، جہاں زمین تنازعات اور دباؤ کا مرکز بن چکی ہے، صحت کشت اکثر غریب کسان کے لیے واحد ثبوت ہے کہ وہ زمین پر کام کر رہا ہے۔ یہ صرف قبضے کی نہیں بلکہ کسان کے پورے زرعی عمل ہل چلانے، بیج بونے، فصل کاٹنےکا اعلان ہے۔
اگر ایمانداری سے درج کیا جائے، تو یہ کسان کو قانون کا محفوظ شہری بنا دیتا ہے۔ لیکن اگر بد نیتی سے چھیڑا جائے، تو یہی اندراج اس کی زمین چھیننے کا آلہ بن جاتا ہے۔
صحت کشت محض کاغذ پر سیاہی نہیں، بلکہ وہ اعلان ہے کہ کس نے زمین کو سینچا اور قوم کو کھلایا—اور اب اسے قانون کا تحفظ ملنا چاہیے۔
خراجِ تحسین اور اصلاح کی پکار: بحیثیت ایک دیہی نظم و نسق کے مشاہد، میں اُن ایماندار پٹواریوں، گرداوروں اور تحصیلداروں کو سلام پیش کرتا ہوں، جو تمام چیلنجز کے باوجود صحت کشت کی روح کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ ڈیسک بیسڈ گرداوری پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔صرف وہی اندراج قانونی مانا جائے جو موقع پر جا کر GPS کے ذریعے کیا گیا ہو۔یہ خاموش جعلسازی کا دور ختم ہونا چاہیے اور شفاف، جوابدہ فیلڈ ویریفکیشن کا دور شروع ہونا چاہیے۔آئیے صحت کشت کو ڈیجیٹائز کریں، تصدیق کریں اور اس کی طاقت بحال کریں،کیونکہ یہی اب بھی جموں و کشمیر میں کاشتکار کے انصاف کی خاموش بنیاد ہے۔
(مضمون نگار ، جموں و کشمیر میں زرعی پالیسی، ریونیو قانون اور دیہی انصاف پر لکھتے ہیں)
[email protected]>
��������������