لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گزشتہ روز جموںمیںدو روزہ ہیلتھ کانکلیو ’ جشن صحت ‘ کا اِفتتاح کیا۔اس موقعہ پر انہوںنے کہا کہ بغیر کسی امتیاز کے سب کیلئے صحت کا حق ہمارا عز م ہے۔اُنہوں نے کہا کہ تقریبا ً 67برسوں سے جموںوکشمیر کے لوگوں کو ہیلتھ کیئر میں مسلسل نظر اندازی کا سامنا کرنا پڑا ،کوئی سرکاری ہیلتھ اِنشورنس سکیم نہیں تھی تاہم وزیر اعظم نے ایک بہتر صحت نظام قائم کیا او رسب کو صحت کی یقین دہانی فراہم کی۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ آیوشمان بھارت۔وزیراعظم جن آروگیہ یوجنا کی عمل آوری سے اب تک جموں وکشمیر میں 77 لاکھ سے زائد لوگوں کو آیوشمان کا رڈ فراہم کئے گئے ہیں اور اب تک 6لاکھ اِستفادہ کنندگان کو سکیم کے تحت مفت او رکیش لیس علاج فراہم کیا گیا ہے ۔اُنہوں نے مزید کہا کہ روزانہ تقریباً 1000 لوگ ہیلتھ گولڈ ن کارڈ اِستعمال کر تے ہیں اور روزانہ ڈھائی کروڑ روپے کا علاج کروارہے ہیں۔انہوںنے مزید کہا کہ جموںوکشمیر یوٹی میں تقریباً 92 فیصدکنبوں کے پاس کم از کم ایک آیوشمان کارڈ ہے ۔قابل ذکر ہے کہ26دسمبر2020کو وزیراعظم نریندرمودی کی جموںوکشمیر میں آیوشمان بھارت۔وزیراعظم جن آروگیہ یوجنارائج کی گئی اور ہدف جموںوکشمیر یوٹی کی مکمل آبادی کو اس سکیم کے دائر ے میں لانے کا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ایک خاص استثنیٰ کے تحت صرف جموںوکشمیر میں سبھی شہریوں کو اس سکیم کے دائرے میں لانے کا فیصلہ لیا ہے جبکہ باقی ملک میں صرف خط افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگ ہی اس سکیم کا فائدہ اٹھاپارہے ہیں۔وزیراعظم جن آروگیہ یوجنا۔صحت سکیم کے ذریعے جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو مفت ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کا اہتما م کیاگیا ہے اور اس میں سبکدوش سرکاری ملازمین اور انکے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔یہ سکیم بالکل مرکزی حکومت کی سکیم ’آیوش مان بھارت سکیم‘کے طرز پرچل رہی ہے اور اس سکیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں وہ سبھی لوگ بھی آجاتے جو آیوش مان بھارت سکیم میں رہ گئے تھے۔یہ سکیم واقعی اُن مریضوں کیلئے ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح ہے جو دائمی مرض کے شکار ہیںاور ان میں یہ امید جاگ گئی ہے کہ اب کم از کم وہ علاج کو نہیں ترسیں گے اور انہیں اب مناسب اور مفت علاج مل رہا ہے۔چونکہ آیوش مان بھارت سکیم کے تحت صرف 2011میں کی گئی سماجی و معیشی مردم شماری میں سطح افلاس سے نیچے گزر بسر کرنے والے کنبے ہی مستفید ہورہے تھے جبکہ جموںوکشمیر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس مردم شماری میں زمینی سطح پر ہوئی دھاندلیوں کی وجہ سے اس فہرست میں جگہ نہیں بناپایا تھا جس کے نتیجہ میں ایسے کنبوں کیلئے علاج و معالجہ کی سہولت انتہائی کٹھن بن چکی تھی تاہم اب اس سکیم کے تحت چونکہ پوری آبادی کا احاطہ کیاگیا ہے تو اب وہ سارے مریض ،جو سرطان یاناکارہ گردوں کے امراض کے علاوہ دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا ہیں،انہیں ایک بڑی پریشانی سے نجات مل گئی ہے کیونکہ اب وہ نامزد سرکاری و نجی ہسپتالوں میں گولڈ ن کارڈ کی طرز پر اس سکیم کے تحت دئے جانے والے ایک ہیلتھ کارڈ کے ذریعے اپنا مفت علاج کراپا رہے ہیں اور اُنہیں ہسپتالوں میںکوئی پیسہ جمع نہیں کرنا پڑ تاہے ۔ حکومت کو بخوبی عوامی مشکلات کا ادراک ہے اور شاید اسی وجہ سے اس سکیم کو رائج کیاگیا ۔حکومت بخوبی جانتی ہے کہ ہمارے یہاں بیماریاں اس قدر عام ہوچکی ہیںکہ اب ہر گھر میں مریض موجودہے ۔ہسپتالوں اور نجی کلینکوں و تشخیصی مراکز پر لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر ہی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ یہاں بیماروں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور اب تو ایسے بیماروں کی ایک فوج بھی یہاں تیار ہوچکی ہے جنہیں علاج و معالجہ پر ماہانہ 20سے50ہزار روپے خرچ کرناپڑ رہے ہیں جو اُن کے بس کی بات نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایسے بیشتر مریضوں کو اب رضاکار فلاحی اداروں کے دفاتر کے باہر دیکھا جاسکتاتھاتاہم اس نئی سکیم کے تحت نہ صرف ان فلاحی اورخیراتی اداروں کا بوجھ بتدریج کم ہورہا ہے بلکہ مریض بھی بہتر علاج و معالجہ یقینی بناپارہے ہیںکیونکہ ہر کنبہ سالانہ پانچ لاکھ روپے تک علاج و معالجہ پر خرچ کرسکتا ہے اور اس کیلئے یہ شرط بھی نہیں رکھی گئی تھی کہ اس سکیم کے تحت اندراج ہونے والے لوگ پہلے توانا ہوں بلکہ پہلے سے بیمار لوگوں کو بھی اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔ یہ سکیم یقینی طور پر جموںوکشمیر کے لاکھوں مریضوں کیلئے جینے کا سہارا بن چکی ہے تاہم نجی ہسپتالوں کی مسلسل شکایت رہتی ہے کہ انہیں سرکار کی جانب سے مفت علاج کے مد پربروقت پیسوں کی ادائیگی نہیں ہورہی ہے ۔اس کے علاوہ یہ بھی شکایات ہیں کہ جموںوکشمیر اور ملک کے مختلف حصوں میں مخصوص نجی ہسپتال یہ گولڈن کارڈ ماننے سے انکاری ہیںاور وہ مریضوں کو اس کارڈ کے تحت مفت علاج فراہم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔سرکار کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنایا چاہئے کہ گولڈن کارڈ پورے ملک کے نجی ہسپتالوں میں چلے تاکہ مریض اپنی پسند کے ہسپتال میں اپنا علاج کرسکیں۔مزید یہ شکایات بھی عام ہیں کہ اس آفاقی صحت بیمہ سکیم کے تحت نجی ہسپتال دوران علاج بے ضابطگیاں بھی کررہے ہیں اور خاص طور پر گردوں کے مریضوں کیلئے ڈیالیسز کے نام پر رقوم کا بھاری ہیر پھیر ہورہا ہے۔متعلقہ حکام کو ان الزاما ت کی بھی تحقیقات کرنی چاہئے اور یقینی بناناچاہئے کہ یہ سکیم شفاف انداز میں چلے تاکہ غریب اور نادار مریضوں کو اس کا بھرپور فائدہ مل سکے ۔