پائین شہر کے فتح کدل علاقہ میں سیکورٹی فورسز اورمحصور عسکریت پسندوںکے مابین مسلح تصادم آرائی کے دوران جس طرح ایک بار پھر صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا ،اُس سے اب یہ بات تقریباً پایہ اثبات کو پہنچ چکی ہے کہ کشمیر میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح ایک مخصوص پلاٹ کے تحت صحافیوں کو زیر عتاب لایا جارہا ہے تاکہ وہ وقت کے حکمرانوںکے سامنے گھٹنے ٹیک کرانکی مرضی اور پسند کا بیانہ پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں۔ایسا محض کسی وسوسے کی بنیاد پر نہیں کہاجارہا ہے بلکہ گزشتہ دو ایک سال کے دوران کشمیر میں جس طرح کارکن صحافیوں کوپیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران قانون نافذ کر نے والے اداروں کی جانب سے ہراسانی اور پریشانی کا سامنا رہا ہے ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ جان بوجھ کر صحافیوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیر ایک شورش زدہ علاقہ ہے جہاں صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران احتیاط برتنا لازمی ہے تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن اب حکومتی ادارے خاص کر سلامتی سے جڑے ادارے ،عدم برداشت کے شکار ہوتے جارہے ہیں اور ایک طرح سے اُن میں تحمل مزاجی کا عنصر ، جسے سلامتی کاروائیوں میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے،دم توڑتا جارہا ہے ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اب ایسے ادارے بالخصوص اور دیگرحکومتی ادارے بالعموم اپنے خلاف تنقیدبرداشت نہیں کر پارہے ہیں اور اس تنقید کو ملک و قوم دشمنی پر محمول کیاجارہا ہے جس کی واضح مثال حالیہ ایام میں کئی صحافیوں کی این آئی اے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور پوچھ تاچھ ہے جہاں اُن سے بے تکے سوالات کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ملک اور قوم دشمن سوچ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کام سے ایسی سوچ کو فروغ دینے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔وہ اس بنیادی بات کو فراموش کرتے ہیں کہ آئینی طور یہاں بھی ہر شہری کو اظہار بیان کی آزادی حاصل ہے اور صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیاگیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق آزادیِ صحافت ایک بنیادی انسانی حق ہونے کےساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں صحافت کی آزادی کسی معاشرے میں آزادی بیان اور اظہار ِ رائے کے احترام کی عکاسی، حکام اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور ذرائع ابلاغ میں اس نکتہ چینی کی آزادانہ اشاعت سے معلوم ہوتی ہے۔ معلومات کی آزادانہ فراہمی عوام کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اس کی روشنی میں حکومتوں اور انکی کاروائیوں کا احتساب کر سکیں۔صحافت سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اگر یہ آزاد ہو تو سماج اور حکومت کی صحیح عکاسی ہوسکتی ہے ،جس کے ذریعے ایک کامل سماج کی تعمیر ممکن بن سکتی ہے۔اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب نے صحافت اور ذرائع ابلاغ کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے کیونکہ اب قارئین ،ناظرین و سامعین ترسیل و ابلاغ کےمختلف ذرائع کے توسط سے پل پل کی خبر سے باخبر رہ پاتے ہیں۔ایسے ماحول میں جب دنیا کے کسی بھی کونے کی خبر محض کمپیوٹر کے ایک کلک کی دوری پر ہے،آزادانہ صحافت کا تصور اور زیادہ اہم بن جاتا ہے لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ بلند و بانگ دعوئوں کے باوجوداپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار ماننے والے ممالک میں صحافت آزاد نہیں ہے بلکہ غیر اعلانیہ سنسرشپ کی تلوار ہر لمحہ صحافتی اداروں کے سروں پر لٹکتی رہتی ہے جس کے نتیجہ میں بیشتر اوقات صحافتی اصولوں پر سمجھوتہ ہی کرنا پڑتا ہے۔بھارت میں بھی گزشتہ چند برسوں سے صحافتی شعبہ میں گھٹن کا ماحول قائم ہے اور جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں بھلے ہی اعلانیہ طور صحافیوں کو رام کرنے کی پالیسی پر عمل نہیں ہورہا ہے لیکن غیر اعلانیہ طور جو کچھ ہورہا ہے ،اس کا منتہائے مقصد یہی ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو یہاں ایک مخصوص لائن پر چلنے کیلئے مجبور کیاجائے۔صحافیوں کو ہراساں کرنے کی خبریں تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیںاور فتح کدل کا واقعہ اس کی تازہ اور زندہ مثال ہے جہاں صحافیوں کو صرف اس وجہ سے ڈنڈوں سے نوازا گیا کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے ۔تاحال کئی دفعہ حکام بالا نے زبانی جمع خرچ کے طورایسے واقعات پر پھر ندامت کا اظہار کیالیکن سلسلہ ختم نہ ہوسکا اور آج بھی جس طرح صحافیوں کوزیر کرنے کے نت نئے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں ،وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ارباب بست و کشاد یہاں ایک مخصوص بیانیہ کو ہی پروان چڑھانے پر مصر ہیں اور انہیں سکے کے دونوں رخ عوام کے سامنے پیش کرنے سے تکلیف ہورہی ہے ۔ اگر ارباب اقتدار واقعی جمہوری ماحول کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں آج نہیں تو کل آزادی صحافت کو یقینی بنانا ہی ہوگا ورنہ اس وقت تک نہ ہی وہ اپنی خامیوں کا سراغ لگاپائیں گے اور نہ ہی ایک کامل و خوشحال سماج کی تکمیل ہوسکتی ہے کیونکہ جب صحافت پر قدغن عائد کی جائے اورتنقید کا عنصرمفقود ہو تو قصیدہ خوانی کرنے والوں کی فوج باقی رہ جاتی ہے جو ارباب اختیار کو اپنی چرب زبانی سے ساتویں آسمان تک لے جاسکتے ہیں لیکن انہیں کبھی زمینی حقائق سے آشنانہیں کرسکتے۔ایسی صورت میں پھر عوامی بیزاری مقدر بن جاتی ہے۔