صحافت کے اصول اور موجودہ صورتحال

Mir Ajaz
13 Min Read
سبزار احمد بٹ
بلا شبہ جن لوگوں کی نظروں میں وسعتیں پیدا ہوجاتی ہیں ،اُن کے اصول زندگی بھر بلند ہوجاتے ہیںاور جو اپنے لئے ’’اصول‘‘ وضع نہیں کرتا ،اُسے دوسروں کے وضع کردہ اصولوں پر چلنا پڑتا ہے ۔زندگی کی کامیابی کا اصول یہ ہے کہ پریشانیوں کے باوجود اپنے جائزاصول پر قائم رہو،یا د رکھو کہ اگر ’اصول‘لمحہ بھر کے لئے بھی ختم ہوجائےتو سارا نظام شمسی تہہ و بالا ہوجائے۔گویادنیا میں ہر کام کے اپنے مقرر کردہ اصول ہوتے ہیں ،کوئی بھی کام جب تک ان مقرر کردہ اصولوں کے تحت کیا جاتا ہے تب تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا ہےلیکن جب کسی بھی کام میں انسان حد سے گزرتا ہے اور اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا ہے تو اس پیشے اور اس کام کی وہی حالت ہوجاتی ہے جو کچھ لوگوں نے موجودہ دور میں   صحافت کی بنا دی ہے ۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور یہ پیشہ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتا ہے ۔ مظلوموں کی آواز بن جاتا ہے اور بے کسوں کا سہارا بن جاتا ہے ۔ سماج میں ایک طرح کا اعتدال بنائے رکھنے میں صحافت کا اہم کردار رہتا ہے ۔ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ موجودہ دور میں جب کہ ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا انقلاب بپا ہوا ہے ۔ وہاں صحافت کا شعبہ بھی بہت حد تک مستفیدہوا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ صحافت کے شعبے میں انقلاب پیدا ہوا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو، ایک عام انسان اس سے فوراً خبردار ہوجاتا ہے ۔ کوئی بھی انسان کسی بھی معاملے میں اپنی رائے پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے ۔ صحافت کا کام عوامی مسائل کو حکومت تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر اٹھائے جانے والی اقدامات اور ملک کے لئے بنائے جانے والے قوانین اور سکیموں کو عوام الناس تک پہنچانا ہوتا ہے اور بعد میں عوامی رد عمل کو من و عن حکومتی اداروں تک پہنچانا بھی صحافت کا ہی کام ہے تاکہ عوامی رد عمل دیکھتے ہوئے ان قوانین اور ان سکیموں کی عمل آوری میں وقتاً فوقتاً تبدیلی لائی جا سکے ۔ یہ صحافت ہی ہے جو ایک عام انسان کو اظہار رائے کا وسیلہ فراہم کرتی ہے۔ جو ظلم و جبر اور زیادتی کے خلاف اپنے قلم اور اپنی زبان کے ذریعے آواز بلند کرتی ہے ۔ صحافت کی اہمیت اور افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نے یہ شعر کہا تھا کہ ؎
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
صحافی کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کے حوالے سے کسی بھی شخص کی رائے کو من و عن پیش کرے اور اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنے سے اجتناب کرے۔ وہاں معاشرے میں امن و سکون بنائے رکھنے میں بھی صحافت کا ایک اہم کردار رہتا ہے ۔ معاشرے میں امن و سکون قائم کرنے کا سہرا صحافت کے ہی سر باندھا جاسکتا ہے۔اتنا ہی نہیں کسی بھی صحافی خواہ وہ کسی اخبار کا مدیر ہو یا اس کے ہاتھ میں مائیک اور کمیرہ ہو ،کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ زبان کی صحت کا خیال رکھے ۔ اخبار میں کوئی ایسی سرخی نہ لکھے یا منہ سے کوئی ایسا جملہ نہ نکالے، جس سے کسی بھی طرح کا انتشار پھیلنے کا کوئی بھی خطرہ ہو ۔ صحافی کا کام رپورٹنگ کرنا ہوتا ہے نہ کہ فیصلہ سنانا۔ فیصلہ سنانا تو عدالتوں کا کام ہے۔
بد قسمتی سے موجودہ دور میں بعض افراد صحافت کے اصولوں کی سر عام دھجیاں اُڑاتے جا رہے ہیں ۔ ایک صحافی وکیلانہ انداز اپنایا ہوا ہے، جس طرح سے وکیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے موکل کو بچائے ،چاہے اس نے کچھ بھی کیا ہو ۔ اس طرح سے آج کے بعض صحافی اپنی ہی رائے کے دفاع کرتے ہوئے نظر آرہے ہیںاور آج کے اکثر صحافی حضرات غیرجانبداری کے اصول کو بھول ہی گئے ہیں ۔ صحافی ایسے صحافت انجام دیتے ہیں جیسے کوئی عدالت فیصلہ سُنا رہی ہو ۔ سرعام لوگوں کو رُسوا اور ذلیل کیا جارہا ہے ۔ صحافی ایک دوسرے پر طعنے اور فقرے کستے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ۔ آئے دن لوگوں کے نجی معاملات کو سڑکوں کی زینت بنایا جارہا ہے ۔ کبھی کسی کی ویڈیو، تو کبھی کسی کی تصویر یا کال ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر ڈال کر سر عام تماشہ بنایا جارہا ہے ۔ معمولی اور غیر ضروری معاملات کو اہمیت دے کر ضروری اور انتہائی اہم نوعیت کے معاملات کو پس پشت ڈالا جارہا ہے ۔ معاشرے میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے ۔ صحافت کا اصول ہے کہ کسی بھی طبقے، قوم یا مذہب کے خلاف کوئی بھی ایسا لفظ یا جملہ استعمال نہ کیا جائے جس سے اس قوم، طبقے اور اس مذہب سے منسلک لوگوں کے جذبات مجروح ہوں ۔ظاہر ہے کہ ایک شخص غلط ہوسکتا ہے نہ کہ پوری قوم ۔ کسی بھی شخص کے ساتھ تب تک مجرم لفظ نہیں جوڑا جانا چاہیے جب تک کہ اس کا جرم ثابت نہ ہو ۔ ایک صحافی میں اتنا تو سوجھ بوجھ ہونا چاہیے کہ کس مسئلے کو سر عام لانا ہے اور کسے نہیں ۔ کیونکہ کبھی کبھی ایسے معاملات بھی پیش آتے ہیں جن پر پردہ ڈالنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔ صحافت سے منسلک لوگوں کو ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہمیں اپنے قانونی اداروں کی قابلیت پر پورا بھروسہ ہے ۔ وہ اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں ، سڑکوں پر رپورٹنگ کرنے والےصحافیوں کو جج یا وکیل بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن چند ایک صحافیوں کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہاں قانون کا کوئی ادارہ موجود ہی نہیں ہے ۔تعجب خیز امر یہ بھی ہے کہ آج کل ہر دس میں سے ایک شخص صحافی بنا بیٹھا ہے، نہ کسی خاص ترتیب کی ضرورت اور نہ ہی کسی سند کی حاجت ۔ بس ہاتھوں میں مائیک اور کیمرہ ہونا چاہیے ۔ نہ اصولوں کی خبر اور نہ ہی ضابطوں کی پاسداری ۔ نہ ہی قانون کا لحاظ اور نہ زبان کا صحیح استعمال ۔سوشل میڈیا پر ایسے ایسے نمونے نمودار ہو گئے ہیں کہ اللہ ہی حافظ ہے ۔ کچھ نہیں تو پھر بھی کوئی نہ کوئی ایسی پوسٹ شیئرکر دیتے ہیں، جس سے ایک با حس اور سنجیدہ انسان کو نہ صرف ذہنی کوفت ہوتی ہے بلکہ نئی نسل پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آتے ہی انسان کو ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی میدان جنگ میں آیا ہو ۔ ہر طرف سے شور فقط شور سننے کو مل رہا ہے، ہر طرف سی ہاہا کار مچی ہوئی ہے ۔ دہشت کا ماحول بنایا جارہا ہے ۔ صحافی چلا چلا کر اپنی رائے منوانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس انتشار کی شکار اگر چہ ہر طرح کی صحافت ہو گئ ہے تاہم الیکٹرانک میڈیا اس انتشار کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ صحافی سوشل میڈیا پر مائیک اور کیمرہ لے کر نمودار ہوتا ہے اور جو بات ایک منٹ میں کہی جا سکتی ہے ۔ اس کی تمہید میں آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت صرف کیا جارہا ہے اور آخر پر کھودا پہاڑ نکلا چوہا والی بات ہوجاتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اچھے صحافی موجود نہیں ہے، بالکل ایسے سچے اور سنجیدہ صحافی موجود ہیں جو ستون بن کر جمہوریت کو تھامے ہوئے ہیں۔ مگر ایسے سنجیدہ، غیر جانبدار اور انصاف پرور صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے ۔ کسی بھی شخص کو مائک اور کیمرہ ہاتھ میں لینے سے پہلے دس دس بار سوچنا چاہیے کہ یہ آسان کام نہیں ہے بلکہ ایک صحافی بننا تیز دھار والی تلوار پر چلنے کے برابر ہے ۔ شام کر گھر پہنچ کر کیا صحافی کو یہ خیال آتا ہوگا کہ آج اس کی مائیک اور کیمرہ کی وجہ سے کتنے لوگوں کا بھلا ہوا اور کتنے لوگوں کی عزت کا سرعام تماشہ بن گیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحافی برادری کی تربیت کا اہتمام کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے اور اس تربیت کا انتظام کالج اور یونیورسٹی سطح پر باضابطہ طور ہونا چاہیے ۔ ان حضرات سے اس کی متعلقہ اسناد کے بارے میں بھی پوچھا جانا چاہیے تاکہ صحافی مائیک اور کمیرہ ہاتھ میں لینے سے پہلے صحافت کے اصولوں سے آگاہ ہوسکے ، تاکہ معاشرے کو باصلاحیت صحافیوں کی خدمات نصیب ہوں ۔ فن صحافت کے موضوع پر ابھی تک سیکنڈوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ کاش صحافت سے منسلک لوگ کم سے کم ایک کتاب کا بغور مطالعہ کرتے اور صحافت کے اصول جان پاتے اور غیر جانبدار اور شاندار رپورٹنگ کر تے ۔میں ہاتھ جوڑکر الیکٹرانک میڈیا سے منسلک لوگوں سے چند ایک گزارشات کرنا چاہوں گا۔
کسی ایسی بات یا ایسے واقعے کی تشہیر نہ کریں جس سے امن و سکون کی صورتحال بگڑنے کا خطرہ ہو ۔ کسی بھی خبر کی رپورٹنگ کرنے سے پہلے پوری تیاری کر لیں ۔کسی بھی شخص کے نجی معاملے کو سڑک پر لانے سے اجتناب کریں ۔ غیرجانبداری اپنائیں اور کسی بھی صورت میں اپنی رائے ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں ۔افراط و تفریط سے الگ رہو ،اعتدال کو اپنا اصول بنائو۔ الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں۔کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسروں کو تکلیف ہو یا کسی کے جذبات مجروح ہوں،کیونکہ جو بات اصولی طور پر غلط ہوگی وہ عملی طور پر کبھی بھی صحیح ثابت نہیں ہوسکتی۔ اس لئےکم سے کم صحافت پر لکھی کسی ایک کتاب کا بغور مطالعہ کریں۔صحافت کو تجارت نہ بنائیں، بلکہ خدمت کے طور پر یہ کام انجام دیں۔ ہر بار لائو آنے سے اجتناب کریں ۔ کیونکہ لائو کے بعد اس پر آپ کا اختیار نہیں رہتا ہےاور نہ ہی ضبط تمہارے وجود کا اصول رہتا ہے۔
Share This Article