دور دراز اور پسماندہ علاقوں کی سچی آواز اجاگر کر نے اور عوامی مسائل کو اُبھارنے کا واحد ذریعہ ذرائع ابلاغ ہیں ۔ میڈیا کہاں تک پسماندہ علاقوں کی غریب عوام کی آواز کو ارباب ِ اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ سب پر عیاں ہے۔ یوں توصحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے مگر ہماری صحافت جمہوریت کی چوتھی کمزوری بن گئی ہے۔صحافت کا تشخص خبر ہوتی ہے اور خبر میں رپورٹنگ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ جب کہ ہماری رپورٹنگ لنگڑی، ہمارے کالم سیاست زدہ، ہماری زبان ناشائستہ اور ہمارے انٹرویو سوالات سے محروم ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد صحافت میں رہ ہی کیا جاتا ہے؟ ہماری صحافت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صحافت سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ سیاست دانوں کی خوشامدی، اُن کے کالے کارناموں کی پردہ پوشی، اُن پرلکھے گئے قصیدوں کے لئے اپنے اخباروں کا ایک پورا صفحہ وقف کر دینا اور ٹی وی اسکرینوں پر پورا پورا دن اُن کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھنا موجودہ دور کی صحافت کا’’ معیار‘‘ بن چکا ہے۔ حالانکہ صحافت ہی واحد ذریعہ ہے جو غریب عوام کی آواز کو بلندکر سکتا لیکن موجودہ دور کی صحافت اس ذمہ داری سے انصاف نہیں برت رہی ۔ صحافت جو کبھی غریبوں کی دلی آواز کو بلند کر نے کا ایک ذریعہ ہوا کرتی تھی ،اب دور ِ حاضر میں ذاتی اثر ورسوخ کا معاملہ بن کر عوامی مسائل کو ابھارنے کے بجائے حقائق کا رنگ ٹیون بدلنے میں کوئی دیر نہیں لگاتی۔ بالفاظ دیگر صحافت محض تجارت کے طورنبھائی جاتی ہے۔ مجھے صحافت سے کسی قسم کی ذاتی دشمنی نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا بیر ہے لیکن م موجودہ دورکے انداز ِ صحافت سے حد درجہ نفرت ہوتی ہے۔ راقم خود بھی موجودہ لولی لنگڑی صحافت سے منسلک ہے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ابھی تک سیاست دانوں کی خوشامدی سے اللہ پاک نے بچائے رکھا۔ لیڈر حضرات کی قصیدہ بازی کرنا، اُن کی جی حضوری کرنا، خوشامد کرنا بے شک بعض جر نلسٹوں کے لئے وقت کی ناگزیر ضرورت ہے لیکن ایسے صحافیوں کے لئے جنہوں نے صحافت کے اس عظیم پیشے کو اپنی انا اور ذاتی مفاد کی خاطر صرف سیاست دانوں کی جبہ سائی تک محدود رکھا ہواہے ۔ملک یاریاست میں کتنے ہی ایسے علاقے ہیں جہاں سے لیڈر حضرات ووٹ تو حاصل کرتے ہیں لیکن اگر ان سے پوچھا جائے کہ علاقہ کا نام کیا ہے تو لیڈر یا عوامی نمائندے کو معلوم ہی نہیں ہوتا جب کہ علاقہ کے تمام فنڈز وہ بڑی آسانی سے اپنی تجوری میں بھر نے کا کرشمہ دکھاتا ہے ۔ اس ساری لوٹ میں صحافت سے مطلبی یارانہ ا س کے لئے چمتکاری بنتا ہے ۔ یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے بکاؤ صحافیوں کی مٹھی گرما کران سے کسی بھی قسم کا کوئی گل کھلو اسکتا ہے کہ عام آدمی کودن رات لگے اوررات دن دِکھے لیکن اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں ایسے بھی احسا سِ ذمہ داری اور عوامی بہبود کو پرموٹ کر نے والے صحافی ہیں جو بے باکی سے حقائق سامنے لاتے ہیں چاہے کوئی ہو یا کوئی ناراض ہو ۔
دور ِ حاضر کی کاروباری صحافت بغیر کسی تحقیق کے واٹس ایپ اور فیس بک جیسی سوشل سایٹوں سے تصویریں حاصل کر کے اور ویڈیو کلپ میں ایڈیٹنگ کر کے اپنی خبروں کا بلیٹن جاری کر دیتے ہیں۔ اس سے جہاں زر والے محنتانہ دے کربآسانی اپنی جھوٹی شان دوبالا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ، وہاں خود صحافت اپنی اعتباریت کھو دیتی ہے۔ اصولی طورصحافت معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے لیکن نامور کہلانے والے بعض صحافیوں نے اپنے قلم اور کیمرے کو صرف چمچہ گیری اور قصدیہ گوئی تک محدود کرکھا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں کام کر رہے مٹھی بھر باضمیر صحافیوں نے چمچہ گیری کی صحافت سے کسی حد تک خود کو تو بچائے رکھا ہواہے لیکن الیکٹرانک میڈیا میں بکاؤ صحافی اپنی نازیبا زبان اور خود غرضانہ رپورٹنگ سے صحافت کی قدر و منزلت اور اس کی پہچان کو جس طرح مسخ کرتے جا رہے ہیں ،و ہ نہایت ہی افسوس ناک اور قابل ِ رحم امر واقع ہے۔ یوں بھی آج کے نیوز چینلوں میں خبر کہیں دیکھنے کو تو نہیں ملتیں، ہاں جب ناظرین ٹی وی کے سامنے بیٹھ کرٹی وی اسکرین پر بڑے بڑے لفظوں میں بریکنک نیوز کے الفاظ پڑھتے ہیں تو کچھ دیر خبر نامہ دیکھنے کی تمنا ضرور کرتے ہیں لیکن تاسف وتعجب اس وقت قابل دید ہوتا ہے جب خبرنامہ پڑھنے والا خبروں کی ایسی خبر لیتا ہے کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔صحافی جسے خبرنامے کے طور سناتا ہے وہ حقیقی معنوں میں خبرنامہ نہیں بلکہ اپنے ہم پیشہ صحافیوں کے خلاف الزام تراشیوں اور انہیں نیچا دکھانے کا ایک منظم شدہ ایپی سوڈ ہوتا ہے جسے اپنے نیوز چینل سے نشر کر کے خبریں سننے والوں کو کنفیوژکرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتا۔ موجودہ دور میں بعض صحافیوں نے جس طرح ایک دوسرے پرکیچڑ اچھالنے کا کام شروع کر رکھا ہے، وہ صحافت کے نام پر ایک اور بدنما داغ ہے ۔ شاید یہ داغ سات سمندر کے پانی سے بھی دھویا نہیں جا سکتا ۔ ایسے صحافی جنہیں عوامی حقوق کی آواز بلند کرنے کی جرأت ہوتی نہ ضرورت محسوس ہوتی، آپسی رسہ کشی میں مبتلا ہونے کے بجائے اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ صحافت سے جڑے اس قماش کے صحافی جو صحافت کے اصل مقام سے آگاہ ہونا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں ،رئیس، زادار اور اثر رسوخ رکھنے والوں کے زر خریدغلام بن کر صحافت کا بد نماچہرہ سامنے لا کر باضمیر اور پیشہ ور صحافیوں کو بدنام کرنے میں اپنا گھٹیاکردار نبھاتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ ایسے ہی نام کے صحافیوں کا نام ہر مجلس میں اول درجے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔سچ کہنے والے صحافیوں کو دیش دروہی اور دوسرے القاب سے یاد کر کے پچھاڑ دیا جاتا ہے، بلکہ سچ کہنے یا حق لکھنے والے کی پاداش میںاُن کی زبان پرقفل لگا دئے جاتے ہیں … خواہ وہ قفل روپے پیسے کا ہو، عہدے کا ہو سفاراش کا ہو یا پھر دھمکی کا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست دان، بیروکریٹس، رئیس اور زردار لوگ صحافیوں کو اپنے جیب کا مال سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میںصحافت کا معیار اور اس کاکردار دن بدن گھٹتا جا رہا ہے۔یہاں یہ کہنا بھی لازمی ہے کہ ایسی صورت حال میں جہاں صحافت صرف دوچہرہ والی سیاست کی گرویدہ بنتی ہو، صحافت کے اس دھندلے معیار میں روشنی کی تھوڑی سی کرن جو نظر آرہی وہ اُن گمنام صحافیوں کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے جو واقعی قوم کی بھلائی کے لئے صحافت میں اپنا کردار خاموشی سے نبھا رہے ہیں، نہ کہ دیگر صحافیوں کی طرح خبر کے ساتھ اپنا نام لکھ کر یا اپنے آپ کو ٹی وی سکرین پر لاکرخود کومکمل صحافی اور تجزیہ کار ظاہر کرکے مال پانی کماتے ہیں ،آپ ذرا ان کی خبر اور تجزیہ دیکھے تو متلی آئے گی کہ یہ پوری طرح سے سیاست زدہ ہو تی ہے خواہ نیوز کسی عام حادثے کی ہی کیوں نہ ہولیکن اُس میں حادثے سے متعلق کہانی کم اور سیاست دانوں کی قصیدہ گوئی زیادہ ہوتی ہے۔ اے کاش یہ نام کے صحافی کام کے صحافیوں کی ذہپنی واخلاقی تربیت میں ہوتے !!!
………………………
9797110175, 7780918848