سرینگر //کشمیر ایڈیٹرس گلڈ کی ایک ہنگامی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کے چارج شیٹ میں صحافت اور صحافی کے کردار کی وضاحت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو کوئی حق اور اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ جمہوریت کے چوتھے ستون صحافت اور صحافی کے کردار کی نشاندہی کریں ۔ایڈیٹرس گلڈ کے ترجمان شفاعت کیرا کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر تحقیقاتی ایجنسیاں صحافت اور صحافی کے کردار کی وضاحت کرنے پر اتر آئی ہیں تو پھر ان تمام یونیورسٹیوں کو بند کیا جانا چاہئے جن میں ہزاروں طلباء کو صحافت اور صحافی کے کردار کے مطالب سمجھائے اور سکھائے جاتے ہیں ۔مطلق العنانیت کے ادوار میں ایسا ممکن ہوسکتا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں صحافت کی من مانی تعریف کریں لیکن جمہوری ملکوں میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی ۔ ایڈیٹرس گلڈ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ کامران یوسف ایک فری لانس جرنلسٹ ہے جس نے کئی میڈیا اداروں کے ساتھ کام کیا ہے ۔چنانچہ اس کی فوری رہائی اور معاملے کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات اس کا مطالبہ ہے جس پر فوری طور عمل درآمد ہونا چاہئے ۔ اب کافی وقت گزرا ہے او ر تحقیقاتی اداروں نے مبینہ طور کامران یوسف کے ملوث ہونے کی ہر پہلو سے تحقیقات کی تاہم کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا ہے جیسا کہ چارج شیٹ کی تفصیل سے ظاہر ہے ۔اس لئے کامران یوسف کو جیل سے رہا کیا جائے تاکہ وہ اپنا معمول کا کام شروع کرسکے ۔ اس سے جمہوریت اور آزادی اظہار کے استحکام میں مدد ملے گی ۔