Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

صبر اور حمیّت کا دوسرا نام عورت! ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے حقوق غصب نہ کریں

Mir Ajaz
Last updated: August 3, 2023 12:59 am
Mir Ajaz
Share
17 Min Read
SHARE
حافظ نوید الاسلام 
اسلام نے مرد و عورت کا فطری توازن قائم کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ گھر کے نظام کا سربراہ مرد ہے اس لیے کہ نظم ایک ہاتھ میں ہو تو نظام درست چلتا ہے اور اگر اختیارات دو ہاتھوں میں تقسیم کر دیے جائیں تو نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ نظم کا تقاضا یہ ہے کہ سربراہی کسی ایک کی ہو۔ اور یہ کہ عورت کے جتنے فرائض ہیں، ان سے ہٹ کر ان پر کوئی ذمہ داری نہ ڈالی جائے۔
انسانی معاشرے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ مرد اپنے گھر کے اخراجات کا کفیل ہے جب کہ عورت گھر کے اندرونی نظام کی ذمہ دار ہے۔ ہاں بوقت ضرورت بیوی اپنے خاوند کا ہاتھ بٹا سکتی ہے اور خاوند بھی گھر کے اندرونی معاملات میں بیوی کی مدد کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی یہ تقسیم ان کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی ہے۔ لیکن مغرب والوں نے عورتوں کو آزادی کے نام پر اِس بات پر اکسایا ہے کہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کیلئے کمانا ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اس بات کو انہوں نے مرد و عورت کے درمیان مساوات کا نام دیا ہے۔ دفتر میں جا کر کام کرنا، فیکٹری میں مزدوری کرنا اور اسی طرح کے دیگر امور ، یہ عورت پر اضافی ذمے داری ہے جنہیں حقوق کا پُرفریب نام دے دیا گیا ہے۔
سیرت طیبہ ؐ کی روشنی میں خواتین کے حقوق و فرائض کا کیا تعین کیا گیا ہے؟ اور ان کا سماجی مقام و مرتبے کے ساتھ ان کے مشورے اور رائے کو کیا اہمیت حاصل ہے؟۔عورت اور مرد سماج کے چار بنیادی رشتوں یعنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے ساتھ منسلک ہیں۔
آئیے! اب ہم نبی کریم ؐ کے ان رشتوں سے تعلقات پر نظر ڈالتے ہیں۔رسول کریم ؐ کی حقیقی والدہ تو بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں لیکن حضور ؐ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ صحابیہ تھیں۔ جب نبی کریمؐ کی والدہ آپ ؐ سے ملنے کیلئے آئیں تو آپ ؐ نے ان کیلئے اپنی چادر زمین پر بچھائی اور اس پر انہیں بٹھایا اور خود ان کے سامنے دو زانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضورِ اکرمؐ نے اپنے عمل سے بتایا کہ ماں خدمت و احترام کی مستحق ہے۔رسول ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جنّت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
آپ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق اس کی ماں ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسولؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ؐ ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہارے والد۔ (بخاری)
رسول کریم ؐ کا اپنی بہن سے حسن سلوک:۔
جناب نبی کریم ؐ کا نہ تو کوئی بھائی تھا اور نہ کوئی بہن – غزوہ حنین میں گرفتار ہونے والوں کیلئے بنو ھوازن کے وفد کے آنے پر حضورؐ نے سب کو رہا کر دیا۔ ان رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک خاتون نبی کریم ؐ کے پاس آئی اور کہا: میں آپؐ کی بہن ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میری تو کوئی بہن نہیں ہے۔ وہ خاتون کہنے لگی کہ میں نے اور آپؐ نے حلیمہ سعدیہؓ کا دودھ پیا ہے، آپؐ کو شاید یاد نہیں ہے کہ آپؐ اور میں بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ہاں تم میری بہن ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ دودھ کا رشتہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نسب کا رشتہ ہے”۔ حضور ؐنے اپنی رضائی بہن سے فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ جانا چاہو تو میرے ساتھ مدینہ منورہ چلو، تمہارا بھائی تمہاری کفالت کرے گا، لیکن اگر تم واپس جانا چاہو تو میں تمہیں خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجو گا۔ خاتون نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ چناچہ رسول کریم ؐنے اس خاتون کو اپنی بہن ہونے کا اعزاز دیا اور ایک دستے کے ساتھ تحائف دے کر رخصت کیا کہ میری بہن کو اس کے گھر پہنچا کر آئو۔
نبی کریم ؐ کا اپنی ازدواج سے حسن سلوک:۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم: ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف مائل ہوکر سکون حاصل کرو اور تم میں الفت و مودِت پیدا کردی، جو لوگ غور کرتے ہیں، ان کے لیے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔(الروم)
نکاح ایک نہایت پختہ عہد ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان ارتباط پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بعد فریقین میں سے ہر فرد کو ’’زوج‘‘ کہا جاتا ہے، چوں کہ ہر ایک دوسرے کا جوڑ ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ نے اسی امر کی پْرحکمت تصویر کشی اس طرح کی ہے، مفہوم: ’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کیلئے لباس ہو۔‘‘ (البقرہ) اس میں لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ زوجین کو باہم الفت و محبت کے ساتھ اور ایک دوسرے کیلئے ستر پوشی کا ذریعہ بن کر رہنا چاہئے۔
لباس کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے ذریعے پردہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کی عیب پوشی کا معاملہ کرنا چاہئے۔ لباس کا ایک مقصد زینت حاصل کرنا بھی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کیلئے باعث ِزینت ہونا چاہئے، چوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلق کے یہ دو فائدے نہایت اہم ہیں، اگر بیوی نہ ہو تو شوہر اپنے جنسی تقاضوں کی تکمیل کیلئے نہ جانے کہاں کہاں منہ مارتا پھرے۔ اس اذّیت سے ایک بات اور سمجھی جا سکتی ہے کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، اسی طرح انسانی زندگی میں میاں بیوی ایک دوسرے کے قریب ترین ہوتے ہیں۔ شوہر و بیوی دونوں کے حقوق مساوی ہیں، بہ جز ان چند باتوں کے جو مَردوں کے ساتھ ان کی فطرت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے:’’عورتوں کا حق مَردوں پر ویسا ہی ہے جیسے دستور کے موافق مَردوں کا حق عورتوں پر ہے، البتہ مَردوں کو عورتوں پر ایک درجے فضیلت ہے۔‘‘ (البقرہ) البتہ اس فضیلت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت مرد کی غلام ہے، شوہر جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے، بلکہ عورت کے بالمقابل مرد پر زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ عورت کے حقوق کا لحاظ رکھے۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم: ’’ مومنو! (اپنی) بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ اگر وہ تمہیں (کسی معاملے میں) ناپسند ہوں، (تو) عجب نہیں کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔ (النساء ) یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح ہدایت فرما دی کہ بیوی کے حقوق کشادہ دلی سے ادا کرتے رہنا اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ احسان و ایثار کی روِش اختیار کئے رہنا۔
جناب نبی کریم ؐکی کل گیارہ جب کہ بیک وقت نو بیویاں تھیں۔ جناب نبی کریم ؐ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پہلا نکاح کیا ۔اس وقت حضرت خدیجہ ؓکی عمر چالیس برس تھی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ پچیس سال تک تنہا آپؐ کی زوجہ محترمہ رہیں اور جب آپؐ پچاس برس کے تھے تب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔ باقی ازواجِ مطہرات میں حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، ام حبیبہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت زینب ام المساکینؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت میمونہؓ شامل ہیں۔ اپنی بیویوں سے آپؐ کا سلوک انتہائی محبت، ایثار اور خلوص کا رہا۔ رسول کریم ؐفرماتے ہیں: ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے اچھا ہوں‘‘۔
حضور نبی کریم ؐ کا بیٹیوں کے ساتھ رشتہ:۔
 اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر روک لگا کر دورِ جاہلیت کی اس رسمِ بد کا قلع قمع کر دیا۔ اس معاشرہ میں جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا، آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرے، اور انھیں اپنی حیثیت کے مطابق پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کیلئے آگ سے حجاب ہوں گی۔‘‘ (ابن ماجہ)
ایک روایت میں فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں، جن کے رہنے سہنے کا وہ انتظام کرتا ہو اور اْن کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہو اور اْن سے شفقت کا برتاؤ کرتا ہو تو یقینا اس کیلئے جنّت واجب ہوگئی۔ ایک شخص نے پوچھا: اگر دو ہی (بیٹیاں) ہوں تو؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خواہ دو ہی ہوں (ان پر بھی یہی بشارت ہے )۔ (ادب المفرد)
یہی نہیں بلکہ اسلام نے پہلی بار وراثت میں بیٹی کا حق جاری کیا۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم:’’ تمھیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زاید، تو ان کیلئے اس ترکے کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کیلئے آدھا حصہ ہے۔‘‘ (النساء )
رسول اللہؐ نے اپنی تعلیمات سے بتایا کہ بیٹی شفقت و محبت کی مستحق ہے۔ رسول کریم ؐ کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب آپؐ سے ملنے آتی تھیں تو آپؐ ان کے استقبال کیلئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ یہ حضرت فاطمہ الزھراءؓ کیلئے آپؐ کی شفقت و محبت کا اظہار تھا۔ نبی کریم ؐ نے بیٹیوں کو عار سمجھنے اور انہیں زندہ دفن کرنے والے معاشرے میں اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے سر پر دست ِ شفقت رکھا، ان کی شادیاں کرائی اور دْنیا کو یہ عملاً بتایا کہ بیٹیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مکتب ہے۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق، باپ سے زیادہ ہے۔ کیوں کہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا، جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔
 عورت کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمّے ہیں۔ عورت کا حق ِ مہر ادا کرنا مرد پر ہر صورت میں لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ ازخود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔
شوہر کے انتخاب میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے۔ نبی کریمؐ نے گھر کی عورتوں کے ساتھ مشورہ کرنے اور ان سے معاملات میں رائے لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جناب نبی کریم ؐ نے عورت کو یہ مقام دیا کہ وہ معاملات میں اپنی رائے دے سکتی ہے اور اس کی رائے کی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔
آج ہر طرف حقوقِ نسواں کے نام پر ایک ہنگامہ بپا ہے اور لوگ اس صنف ِ نازک کے جذبات سے کھیل کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف انہیں آزادی کے نام پر بر سرِ بازار لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف ان کے حقوق کے نام پر ایسے بے سروپا قوانین بنائے جا رہے ہیں جن سے گھر کا چین و سکون غارت ہوگیا ہے۔اس دور فتن میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ خواتین کو سیرت طیبہ ؐ کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سیرت طیبہ ؐہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور یہی ہماری بنیاد بھی ہے۔ ہمیں اپنی اسلامی بنیادوں پر استقامت سے کھڑا رہنا چاہئے کہ یہی اس دور پُرفتن کے سیلاب بلاخیز سے ہماری حفاظت کرسکتا اور ہمیں مامون و محفوظ رکھ سکتا ہے۔
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔ مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان آراء کو کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
نظام الدین کیانویؒ کے سالانہ عرس کی تقریب اختتام پذیر بابا نگری وانگت میں1لاکھ سے زائد کا اجتماع
کشمیر
بابا نگری پر حاضری، سلامتی اور خوشحالی کیلئے دعا ریاست کی بحالی کے لیے پر امید ہیں:ڈاکٹر فاروق
کشمیر
بابا نگر ی سے راجوری تکبس سروس کا اِفتتاح
کشمیر
جنوبی و شمالی کشمیر میں ڈوبنے کے واقعات||3افراد لقمہ اجل پٹن میں دلدوز واقعہ، غبارہ نگلنے سے لڑکا جاں بحق
کشمیر

Related

گوشہ خواتین

! تلاشِ وجودکا پہلا قدم خود کا محاسبہ فکر و فہم

June 4, 2025
گوشہ خواتین

رشتے نبھانے کی بنیادی شرط صبر و برداشت غور طلب

June 4, 2025
گوشہ خواتین

آٹیزم سپکٹرم ڈس آرڈر :اسباب، علامات اور علاج فکرو ادراک

June 4, 2025
گوشہ خواتین

عورت کا عزت و احترام ،گھر کے لئے سکون و آرام گھر گرہستی

June 4, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?