مختار احمد قریشی
صبر کرنا ایمان کی ایک بنیادی علامت ہے، جو انسان کے کردار اور اس کی روحانی پختگی کا مظہر ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں صبر کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے اور یہ ہر مسلمان کی زندگی میں ایک لازمی صفت تصور کی جاتی ہے۔ صبر دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو مشکلات اور مصائب میں مضبوطی سے کھڑا رہنے کی طاقت دیتا ہے۔
ایمان اور صبر کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ ایک مومن کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اور ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے۔ جب ایک مسلمان صبر کرتا ہے، وہ اللہ پر توکل کرتا ہے اور اس کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ یہ ایک علامت ہے کہ وہ اپنے رب پر مکمل بھروسہ رکھتا ہے اور اس کے فیصلوں کو قبول کرتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔صبر کی سب سے بڑی مثالیں انبیاء کی زندگیوں سے ملتی ہیں، جنہوں نے اللہ کی راہ میں شدید مشکلات کا سامنا کیا لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری۔ حضرت ایوبؑ کا صبر ایک مثالی مثال ہے، جنہوں نے اپنی بیماری اور مصیبتوں کے باوجود اللہ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ شکر گزار رہے۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ کو بھی اپنے بھائیوں کی سازشوں اور جیل کی مشکلات کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی مشکلات کو نظر انداز کرے یا ان سے بھاگ جائے بلکہ یہ ہے کہ وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کرے اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھے۔ صبر کے ذریعے ہی انسان روحانی طور پر مضبوط ہوتا ہے اور اللہ کے قریب ہو جاتا ہے۔
صبر کی دو قسمیں ہیں: صبر علیٰ الطاعات اور صبر عن المعاصی۔ صبر علیٰ الطاعات کا مطلب ہے کہ انسان اللہ کی عبادت میں استقامت رکھے اور اس کے احکامات کو پوری ایمانداری سے بجا لائے۔ یہ صبر اس بات کی علامت ہے کہ ایک مومن اپنی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزارنے کے لیے ہر مشکل کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔
دوسری طرف، صبر عن المعاصی کا مطلب ہے کہ انسان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے اور اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی سے دور رکھے۔ یہ صبر اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پا کر اللہ کی رضا کو مقدم رکھتا ہے۔صبر کی ایک اور اہم شکل صبر عند المصائب ہے، یعنی مصیبتوں اور مشکلات میں صبر کرنا۔ دنیاوی زندگی میں مشکلات آنا ایک لازمی امر ہے اور ایک مومن کا امتحان یہی ہے کہ وہ ان مشکلات کو کیسے برداشت کرتا ہے۔ صبر عند المصائب میں انسان اللہ کے فیصلوں پر راضی رہتا ہے اور اسے اپنی آزمائشوں میں اللہ کی حکمت پر یقین ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دو،‘‘ (البقرہ 155)۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو ان کی مشکلات کے بدلے میں بہترین اجر عطا کرتا ہے۔ صبر کرنے والے لوگوں کو اللہ کی رحمت اور فضل نصیب ہوتا ہے اور وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صبر کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ جب ایک مومن صبر کرتا ہے تو وہ اپنی آزمائشوں کو اللہ کی طرف سے ایک امتحان سمجھتا ہے اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کی مشکلات کو دور کرتا ہے بلکہ اسے روحانی طور پر بھی ترقی دیتا ہے۔احادیث میں بھی صبر کی فضیلت پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کی مثال کھجور کے درخت کی طرح ہے، جس کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ ہر طرح کی ہواؤں کا مقابلہ کرتی ہے۔‘‘ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ایک مومن کو بھی صبر کی قوت سے مضبوط ہونا چاہیے اور ہر مشکل کو اللہ کے حکم کے مطابق برداشت کرنا چاہیے۔صبر کرنے والا شخص ہمیشہ اللہ کے قریب ہوتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی ہر آزمائش ایک مقصد کے تحت ہے۔ صبر کے ذریعے انسان کی روحانی تربیت ہوتی ہے اور وہ اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارنے کے قابل ہوتا ہے۔حضرت علی ؓ کا قول ہے: ’’صبر ایمان کا حصہ ہے، جس طرح سر جسم کا حصہ ہے۔‘‘ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح سر کے بغیر جسم مکمل نہیں ہوتا، اسی طرح صبر کے بغیر ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا۔ ایمان اور صبر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اور ایک مومن کی پہچان اس کے صبر سے ہوتی ہے۔
صبر کی مثال ہمیں حضرت فاطمہؓ کی زندگی سے بھی ملتی ہے، جنہوں نے رسول اللہؐ کی بیٹی ہونے کے باوجود دنیا کی مشکلات کو صبر سے برداشت کیا۔ ان کی سادگی، صبر اور استقامت ہمیں بتاتی ہے کہ دنیاوی مشکلات میں بھی اللہ کی رضا کو مقدم رکھنا چاہیے۔صبر کا مطلب صرف مشکلات کو برداشت کرنا نہیں ہے بلکہ ان مشکلات میں اللہ کی رضا کو تلاش کرنا بھی ہے۔ ایک مومن کو یقین ہوتا ہے کہ ہر مشکل اللہ کی طرف سے آتی ہے اور وہ اس میں ایک حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ صبر کرنا ایمان کی علامت ہے۔حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ’’جو صبر کرتا ہے، اللہ اس کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔‘‘ یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو ان کی محنت اور قربانیوں کا بہترین اجر عطا کرتا ہے۔صبر انسان کو عاجزی سکھاتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے بے بس ہے اور ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ عاجزی انسان کے ایمان کو مضبوط کرتی ہے اور اسے اللہ کے قریب لاتی ہے۔
صبر کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو دنیاوی خواہشات سے دور رکھتا ہے۔ جب ایک مومن صبر کرتا ہے، تو وہ دنیاوی لذتوں اور کامیابیوں کی بجائے اللہ کی رضا کو اہمیت دیتا ہے۔ یہ صبر اسے دنیاوی فتنوں سے بچاتا ہے اور اس کے ایمان کو مضبوط بناتا ہے۔صبر کی بدولت انسان کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔ یہ سکون اس کی روحانی حالت کو بہتر بناتا ہے اور اسے دنیا کی مشکلات میں کامیاب ہونے کے قابل بناتا ہے۔جب انسان صبر کرتا ہے، تو وہ اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا کے تابع کرتا ہے۔ یہ صبر اس کی روح کو پاک کرتا ہے اور اسے دنیاوی محبتوں سے آزاد کرتا ہے۔صبر ایمان کی علامت ہے، کیونکہ یہ انسان کو اللہ پر مکمل بھروسہ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک مومن کو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو ضرور دور کرے گا، اور یہی یقین اس کے صبر کو مضبوط کرتا ہے۔
صبر کرنے والا انسان ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، کیونکہ وہ اپنی مشکلات کو اللہ کی طرف سے ایک امتحان سمجھتا ہے۔ یہ صبر اسے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب بناتا ہے۔
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور انہیں اپنی خاص رحمت سے نوازتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (البقرہ 153)
( مضمون نگار، اُستاد ہیں اور بونیار سے تعلق رکھتے ہیں)
[email protected]