صبر قرآن کی ایک بلیغ اصطلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا ثواب بے حساب دیا جائے گا‘‘(الزمر۔10)۔مشہور عربی لغت مصباح اللغات میں صبر کو بہادری اور مصیبت کی شکایت نہ کرنا سے تعبیر کیا گیا ہے۔صبرکی تشریح سے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں:۔(1)۔ عمدہ زندگی صبر میں ہی پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔(حضرت عمرؓ)(2)۔بری باتوں سے دور رہنااور محتاجی میں بے پرواہ رہنا۔۔۔۔۔(ذوالنون مصریؒ)(3)۔بلائے الہٰی پر ادب کے ساتھ سکوت کرناصبرہے۔۔۔۔۔(ابنِ عطاء)(4)فارسی میں کہا جاتا ’’صبر تلخ است و لیکن بر شیرین دارد‘‘ یعنی صبر تلخ یا کڑوا ضرور ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی کو صبر سے پیوستہ رکھاوہ ابدی کامیابی سے ہمکنار ہوگئے۔ہر مصیبت اورپریشانی کے وقت اللہ کو یاد رکھنا اور اُسی سے استعانت کرنا صبر کی بہترین علامت ہے۔صحیح بخاری کی کتاب الرقاق میں حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ چند انصاری صحابیٰؓ نے اللہ کے رسول ؐ سے کچھ مانگا ‘اس پر رسول اللہ ؐ نے اُنہیں وہ سارا مال دے دیا جواُس وقت آپ ؐکے پاس تھا۔اس کے بعد فرمایا کہ میں ہر وہ اچھی چیز جو میرے پاس ہو تم سے بچاکے نہیں رکھتا‘مگر بات یہ ہے کہ جو بھی تم میں سے سوال کرنے یا ہاتھ پھیلانے سے بچتا رہے گا اللہ بھی اُسے غیب سے دے گا اور جو شخص دل پر زور ڈال کر صبر اختیار کرے ،اللہ بھی اُسے صبر د ے گا اور جو(رزق سے متعلق ) بے پرواہ رہے گا، اللہ بھی اُسے بے پرواہ کردے گااور اللہ کی کوئی نعمت صبر سے بڑھ کر تم کو نہیں ملی(حدیث نمبر۔6470)۔اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں آیاہے کہ سترہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے‘ ان میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو خالص اپنے رَب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں(بخاری۔6472)۔اس حدیث میں اگر چہ صبر کا ذکر نہیں ملتا ،تاہم امام بخاری ؒ نے اسے صبرکے باب میں لاکریہ واضح کیاہے کہ خالص رب پر بھروسہ کرنے والے صابرین ہی ہوتے ہیں۔
قرآن کی سورۃالعصرمیں ’’صبر‘‘ کو اُن چار شرائط میں شمار کیا گیا ہے جو ایک انسان کی ابدی کامیابی کی بنیاد قرار دی گئیں ہیںجن کی ترتیب اس طرح سے ہے:۔(1)۔ایمان(2)۔اعمالِ صالح(3)۔تواصی بالحق(4)۔تواصی بالصبر۔گویا یہ کامیابی کی ایک سیڑھی بن گئی جس کا پہلا زینہ ایمان اور آخری زینہ صبر ہے۔جس کو طے کرنے کے بعد ہی انسان کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ ’’تواصی بالصّبر‘‘ میں اگر چہ دوسروں کو صبر کی تلقین کرنے کو کہا گیا ہے‘تاہم دوسروں کو تلقین کرنے سے قبل انسان کو لازم ہے کہ وہ خودبھی صبر کا حامل ہو۔ صبرزندگی کے ہر مسلے کے حل کی شاہ کلید ہے۔ صبر سے محروم انسان ہر وقت ذہنی تنائو میں مبتلا رہتا ہے ۔ ایسے لوگ جن کے اندر صبر کا فقدان ہوتا ہے ،وہ ضعیف الایمان ہونے کے علاوہ قدرے پست ذہن بھی ہوتے ہیں۔مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے رجوع کرتے ہیں ۔حضرت زکریاؑسے متعلق مشہور ہے کہ آپؑ زندگی کے اسّی سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے مگر آپ ؑنے صبر کا دامن تھام کراپنے معبودِ حقیقی سے التجا کی اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُس عمر میں اولاد عطا کی جب وہ قدرے ضعیف ہو چکے تھے(القرآن)۔ صبر وثبات کے حوالے سے پیغمبروںؑ کی بہترین زندگیوں سے بہترین نمونہ اور کہاں دنیا کو مل سکتا ہے ؟
رابطہ : سیرجاگیر سوپور‘کشمیر
فون:8825090545