Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

صبح کا بھولاشام کو گھرآئے تو اسے بھولانہیں کہتے میری بات

Towseef
Last updated: July 24, 2024 11:16 pm
Towseef
Share
10 Min Read
SHARE

سید مصطفیٰ احمد ۔بڈگام

کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ جب تک راستے سمجھ میں آتے ہیں تب تک لوٹنے کا وقت ہوجاتا ہے۔ یہ الفاظ ہماری حالت کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں۔ زندگی کے لگ بھگ تیس سال گزارے کے بعد اب ہمیں صحیح راستے سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ پیچ و خم کی کھار دار وادیوں کی پہچان اب ہونے لگی ہیں۔کن راہوں میں بھوم تاک میں بیٹھے ہیں اور کس راستے پر چل کر ہم سمندر پار کرکے منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے، دوپہر کی دھوپ کی مانند صاف ہوگیا ہے۔ آج احساس ہورہا ہے کہ ایسا کیا پانا تھا ہمیں کہ ہم نے اپنے آپ کو ہی کھو دیا، کے مصداق ایسا کیسے ہوگیا کہ میں ان راہوں پر چلتا رہا جو تباہی کی دعوت دے رہے تھے اور ایسا ان لوگوں کے پاس کیا تھا کہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنی بے بسی کے کنویں کھودتا رہا۔ ان خوبصورت روشنیوں اور قندیلوں نے مجھ پر ایسا کونسا جادو کر دیا تھا کہ میں اپنا ہوش کھوکر مدہوشی کی ایسی نیند سو گیا کہ سالوں سال بیت جانے کے بعد اب کسی حدتک یہ احساس ہوگیا ہے کہ یہ راستے تو غلط تھے اور ان راستوں میں وصال یار ہونا ناممکن تھا۔ جیسے کہ پہلے ہی اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اب احساس ذمہ داری نے دامن کو گھیرا ہے تو ایسے میں واویلا کرنے کے بجائے میں نے ایک مشہور شاعر کے الفاظ کو سن کر دل کے بوجھ کو ہلکا کردیا ہے۔ اس شاعر کے الفاظ ہیں کہ دل نادان تجھے ہوا کیا ہے، آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔ ان الفاظ نے مجھ پر دائمی اثرات مرتب کرکے غور و فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں پہنچا دیا ہے۔ میں نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اپنی بربادی کا سبب نادان دل سے اور نہ کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟ ضرورت ہے تو زندہ جاوید روح سے پوچھنے کی۔ اس چھپے ہوئی روح سے میں اس مضمون کے وساطت سے ایک ہی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آخر میری منزل یا انتہا کیا ہے۔ یہ میرا راستوں پر اتنے سالوں تک بھٹکنا، سڑک کے چوراہے پر میرے کپڑوں کا پھاڑا جانا،ایک جنڈ کا مجھے جانوروں کی طرح مارنا اور لہولہان کرنا، حرام رشتوں میں بندھنا، اپنے نفس اور دوسرے لوگوں کے حقوق کو پامال کرنا، کبھی اپنے سے تو کبھی غیروں سے شکایتیں کرنا، کبھی روٹھنا اور کبھی منانا، کبھی سونا تو کبھی جاگنا، کبھی نفرت کرنا تو کبھی پیار کرنا، کبھی جینا تو کبھی مرناوغیرہ ایسے کتنے سوالات میرے من میں تھیں جو میں نے آج کے دن اپنے دل سے پوچھنے کے بجائے اپنی روح سے پوچھ کر اپنا بوجھ ہلکا کردیا۔ اسی عنوان پر میں آنے والی سطروں میں بات کرنے جارہا ہوں۔
پیر ذوالفقار نقشبندی صاحب کی ایک تقریر میری روح کے جوابات کی نصف تفصیل ہیں، جس میں وہ ایّاز اور محمود غزنوی کی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کیسے ایّاز نے اپنے بادشاہ کا حق ادا کرتے ہوئے نمک حرامی نہیں کی۔ اس نے محمود کے دربار میں رہ کر ایسی خدمات انجام دیں کہ بادشاہ کا چہیتا بن گیا لیکن جب اس نے بادشاہ کے دربار میں پہلی بار قدم رکھا تھا تو معمولی سے کپڑے پہنے تھے، لیکن بادشاہ نے اس پر اپنا کرم کیا اور اس کے لئے کھانے کے علاوہ معیاری کپڑوں کا بھی انتظام کیا۔ دنیا کے دستور کے مطابق بادشاہ کے دربار میں بیٹھے ہوئے معتضریں حسد کی آگ میں جل گئے۔ انہوں نے بادشاہ سے
شکایات کی کہ بادشاہ سلامت! ہمیں پورا شک ہے کہ آپ کا چہیتا ایّاز سرکاری خزانے سے مال چراتا ہے اور اپنی چھوٹی سی الماری میں ان کو چھپاتا ہے۔ بادشاہ نے ایّاز سے اس الماری کی بابت پوچھ کر چابی مانگ لی اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس الماری سے جو بھی سامان برآمد ہوتا ہے، اس کو میرے سامنے حاضر کرو۔ سپاہی اس الماری سے صرف معمولی سا لباس اور پھٹے پرانے جوتے اپنے ساتھ لائیں۔ بادشاہ نے ایّاز سے پوچھا کہ یہ تو اتنا قیمتی سامان نہیں ہے کہ تم اس کو ایک الماری میں رکھ دو اور صبح شام اس کو دیکھتے رہو۔ ایّاز نے روتے ہوئے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت! میرے لئے قیمتی ہیں۔جب میں یہ یہاں آیا تھا تو میری حالت خستہ تھی۔ معمولی سا لباس اور پھٹے پرانے جوتے پہنے تھے۔ آپ کی مہربانیاں مجھ پر انتہائی زیادہ ہیں۔ میں صبح بھی اور شام بھی ان چیزوں کو دیکھتا ہوں اور اپنے نفس سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں ایّاز! بادشاہ سلامت کے احسانات کو کبھی مت بھولنا۔ تمہاری حالت تو یہ تھی۔ میں صبح بھی اور شام بھی اپنے آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری اصلی پہچان کیا ہے۔ اس تقریر میں مولانا روم کی حکایات نے میرے مضمون کا تعارف کروایا۔ اصل میں ہماری اور خاص کر میری زندگی میں بھٹکنے کی بنیادی وجہ اپنے مالک سے کی گئی غداری اور بے وفائی ہے۔ مالک کی مرضی کی خلاف ورزی کرنے کا نتیجہ میری بےراہ روی کی شکل میں نکل کر آیا، جس سے وقت اور وسائل دونوں کا زیاں ہوگیا۔ دوسروں کی باتوں کو ہی سچ مان کر کبھی یہاں تو کبھی وہاں ایک جھولے کی طرح میں ہوا میں جھولتا رہا۔ ایک راہنما کو چھوڑ کر دوسرے راہنما کے پیچھے چلتے چلتے پاؤں میں اتنے چھالے پڑ گئے ہیں کہ رات بھر نیند نہیں آتی ہے اور دن یاس اور ارمان کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایک جگہ شاعر نے کیا خوب لکھا ہے کہ میرے دل کی بات دکھائی پڑتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہر ایک سے منزل کا پتہ پوچھ رہا ہے گمراہ میرے ساتھ ہوا راہنما بھی۔ صحیح بات ہے، جب اپنی منزل کا پتہ دوسروں سے پوچھنا عام ہوجاتا ہے تو رہبر کے ساتھ ساتھ اس کے تابع چلنے والا اَن پڑھ مگر معصوم انسان بھی گمراہ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا ہے۔ یہاں پر کسی کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ میں اپنی خامیوں کو اشاروں میں قلمبند کرنے کی بھرپور ہمت کررہا ہوں۔ جس انسان کا خساروں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہوں وہ کسی اور کے لئے چاہ کھودنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان رہبروں کا میرا دل سے سلام جو علم و حکمت کی معراج پر براجمان ہیں۔ مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے اب اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ شاید بھٹکنا بھی ضروری تھا۔ خدا بہتر جانتا ہے میرا شراب خانے سے اس لئے گزرنا ضروری تھا تاکہ مجھے حقیقی راستے کی پہچان ہوجائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دل کبھی مطمئن نہیں تھا ،جب مالک کے احکام کی دن دہاڑے دھجیاں اڑائی جاری تھیں۔ جیسے تیر نیم کش سے ایک ناقابل برداشت درد پیدا ہوتا ہے، اسی طرح جھوٹ کے آگے سر جھکاتے وقت ایسا درد ہوتا تھا کہ جیسے ایک ظالم نے تیر مار کر آدھا وہی چھوڑا ہوں۔
مجھے ان سارے دروں سے ایک ہی صلہ ملا وہ یہ ہے کہ ہزاروں غم اب میری زندگی کے پیچھے ہزاروں غم لگے ہیں، لیکن ان بے بنیاد چوکھٹوں نے مجھے اس صحیح آستاں پر پہنچا دیا ہے جہاں پر میں یہ الفاظ کہنے کے قابل ہوں کہ تیرے آستاں سے سر کو میں اٹھاؤں گا نہ ہرگز ،میں کہاں کہاں نہ بھٹکا تیری بندگی کے پیچھے۔ اب جینا بھی اسی درد پر ہے اور مرنا بھی۔ تیرا در تیرا کوچہ کافی ہے بے ٹھکانوں کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے، کے مصداق اب مجھے اپنی ہستی کا احساس ہوگیا ہے۔ ہستی اپنی سراب کی سی ہے ،کی طرح اب اس حقیقی رنگ میں رنگ جانا ہے کہ دوسرے رنگ میں رنگنے کی فکر نہ رہے۔ جس خواب میں ہوجائے اپنے نفس سے مخاطب ہونا حاصل! اے خدا! کبھی ہم کو بھی نیند ایسی سلا جانا، کے ساتھ ہی میں اس مضمون کا اختتام کرنے جارہا ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کی زندگیوں کے اندر زندگی کا حقیقی شعور پیدا ہوجائیں۔ دیر سے ہی سہی لیکن موت سے پہلے آگاہی اور حقیقت کے دروازے ہماری زندگیوں میں کھلیں اور اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ صبح کا بھولا شام کو آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے ہیں۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں-سرینگر قومی شاہراہ پرادھمپورکے سمرولی میں پتھر گر آنے کے باعث ٹریفک متاثر
تازہ ترین
رکشا بندھن پر جموں کا آسمان بنا رنگوں کا میلہ چھتوں پر پتنگوں کی جنگ، بازاروں میں خوشیوں کی گونج
جموں
بانہال میں چھوٹی مسافر گاڑیوںاور ای رکشاوالوں کے مابین ٹھن گئی الیکٹرک آٹو کو کسی ضابطے کے تحت صرف قصبہ میں چلانے کی حکام سے اپیل
خطہ چناب
جموں و کشمیر کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک بنانے کی ذمہ داری ہر شہری پر عائد ہے | کچھ عناصر ٹی آر ایف کی زبان بولتے ہیں پولیس اور سیکورٹی فورسز امن کو یقینی بنانے اور ایسے عناصر کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کیلئے پُرعزم:ایل جی
جموں

Related

کالممضامین

افسانوی مجموعہ’’تسکین دل‘‘ کا مطالعہ چند تاثرات

July 18, 2025
کالممضامین

’’تذکرہ‘‘ — ایک فراموش شدہ علمی اور فکری معجزہ تبصرہ

July 18, 2025
کالممضامین

نظموں کا مجموعہ ’’امن کی تلاش میں‘‘ اجمالی جائزہ

July 18, 2025
کالممضامین

حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ؟ ہمارا معاشرہ

July 18, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?