منور خان دنیا جہان کی دولت اس کے بینک اکائونٹ میں جمع کرانا چاہتا تھاکیونکہ ایک توو ہ اس کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اس سے بے انتہا محبت کرتا تھا۔ صاحبہ ؔجب پیدا ہوئی تھی تو اس کے ٹھیک پانچ برس بعداس کی ماں چل بسی ۔اس وقت منور خان کے گھر میں جیسے قیامت صغرا بپا ہوئی تھی۔ سب عزیز و اقارب پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ منور خان پاگلوں کی طرح ماتھا پیٹتا ہوا پھررہا تھا۔ آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہہ رہے تھے اور وہ من ہی من میں بڑبڑا رہا تھا ۔
’’وہ کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئی ؟کیوںجواں مرگ ہوگئی ۔۔؟‘‘
رشتہ دار پرست اور با اخلاق۔وہ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتی ۔اس کا کون کون سا وصف بیان کریں ۔
صاحبہ پانچ برس تک اس کی نگرانی میں پرورش پاتی رہی اور وہ جوں جوں بڑی ہوتی گئی ایک کے بعد ایک ماں کے سبھی اوصاف اس میںجھلکنے لگے۔منور خان بھی بڑے نازوں سے صاحبہ کی پرورش کرتا رہا۔ اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ان کے پاس تھازمین ‘جاگیر‘گاڑی بنگلہ۔
بیوی کی موت کے بعد منور خان نے ساری توجہ صاحبہ پر ہی مر کوز کی اس نے دوسرے بیاہ کے بارے میں کبھی سوچا تک بھی نہیںکیونکہ مرتے وقت بیوی نے اس سے وعدہ لیا تھاکہ وہ صاحبہ کو ماں کی کمی کا احساس نہ ہونے دیگا۔ اس لمحے آخری بارمیاں بیوی ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے پھر کچھ ہی دیرمیں منور خان کی بیوی نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔
صاحبہ آ ہستہ آہستہ جوانی کی دہلیزپھلانگتی گئی ۔برس پہ برس بیت چکے تھے اب وہ بڑی ہوگئی تھی اوربڑی بڑی باتیں کرتی تھی ۔منور خان کو کبھی گھر لوٹنے میں تاخیر ہوجاتی توصاحبہ آسمان سر پر اُٹھا لیتی اور شرارت بھرے لہجے میں کہتی۔
’’یہ بھی گھر آنے کا کوئی وقت ہے بابا۔مجھے پریشانی ہوتی ہے۔‘‘
وہ کہتے۔
’’صاحبہ یہ دوڑ دھوپ میں صرف تمہارے لئے کررہا ہوں ۔میں چاہتا ہوںکہ تمہارے بینک اکائونٹ میں اتنی دولت جمع کروںکہ تم دنیا کی امیر ترین بیٹی بن جائو۔‘‘
’’بابا میری دولت آپ ہیں میرے لئے آپ فکر نا کریں۔ آپ کو کوئی تکلیف ہو یہ مجھ سے سہا نہیں جاتا ۔‘‘
’’بیٹی میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ تمہیں امیر ترین بیٹی بنا کر ہی دم لوں گا۔‘‘
’’بابا ہمارے پاس بہت دولت ہے اب اور کمانے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
’’بیٹی یہ مادہ پرستی کا دور ہے دنیا آپ کے طور اطوار ‘عادات اوصاف نہیں دیکھے گی۔دنیا بس دولت کی دیوانی ہے اس لئے میں اتنی دولت کما کے رکھنا چاہتا ہوںکہ تم ساری عمر آرام سے گزار سکواور جب تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہوںتو وہ اپنے نانا پر ناز کریں۔‘‘
’’بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!جائو مجھے آپ سے نہیں بولنا۔‘‘
’’کیوں بیٹی۔‘‘
’’بابا میں آپ کو کبھی چھوڑ کے نہیں جائوں گی۔میں آپ کے آنگن کی ایک ہی کلی ہوںمجھے اسی آنگن میںکھلنے دواور بابامیرے سوا آپ کا ہے کون جو آپکی دیکھ ریکھ کرے۔‘‘
منور خان اپنے بازئوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
’’بیٹی مجھے کیا ہوا ہے یہ دیکھ میں ہٹا کٹا ہوں ان بازئوں میں ابھی بہت طاقت ہے‘‘
منور خان نے کئی کارو باری یونٹ قائم کئے، جہاں اس نے کئی لوگوں کو ملازمت پر رکھاجو تن دہی اور ایمانداری کے ساتھ کام کرتے رہے۔ منور خان کو کاروبار میںبہت قلیل وقت میں بہت زیادہ منافع ہوا اب وہ علاقے کے روساء میں شمار ہونے لگا ۔وہ کار و بار میں اتنا زیادہ مصروف ہونے کے باوجود بھی صاحبہ کے لئے وقت نکالتا تھااور اس کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرتا رہتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر منور خان اپنی بیٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا
’’ بیٹی ۔۔۔میں نے آپ کے بینک اکائونٹ میں اب اتنی دولت جمع کی ہے کہ آپ کو زندگی بھرکام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔‘‘
’’بابا۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا کیا۔۔!!‘‘
’’بیٹی یقین نہیں آتا ہے تو اپنا بینک اکائونٹ چک کر کے دیکھ سکتی ہو ۔‘‘
’’بابا۔۔۔پھر تو اب آپ کو آرام کرنا چاہئے۔’’ہاں۔۔۔ ٍُبیٹی اب تو آرام ہی کریں گے۔لیکن ک ضروری کام کرنا ہے۔‘ ’’ وہ کیا بابا۔۔۔
ہاں بیٹی ۔۔۔اب تو آرام ہی کریں گے مگر ۔۔۔۔پہلے ایک ضروری کام کرنا ہے۔‘‘
وہ کیا بابا۔۔۔۔!!
’’مجھے اپنی بیٹی کیلئے ایک لڑکا ڈھونڈ نا ہے، جو محنتی ہو ‘خوب صورت ہو اور جو میری بیٹی کو ہر وقت خوش رکھے ۔‘‘
’’بابا ‘‘وہ شرما کر کچن میں چلی گئی۔
کچھ دیر کے بعد صاحبہ کی آواز آئی۔
’’بابا میں نے کھانا پروسا ہے۔‘‘
دونوں نے ساتھ ساتھ کھانا کھایا۔پھر منور خان اُ ٹھ کر چلا گیا ۔
اگلے دن اس نے ایک قریبی رشتہ دار کو صلاح مشورے کے لئے گھر بلایااور کہا ۔۔
’’ صاحبہ میری اکلوتی بیٹی ہے۔ اب وہ جوان ہوگئی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کا بیاہ کروں ۔‘‘
’’آپ کے منہ میں گھی شکر ۔نیک کام میں دیر ہی کیوں۔بسم اللہ کیجئے ۔‘‘
’’بھئی وہ حاجی غلام رسول کے منجھلے بیٹے تنویر احمد کے بارے میں آ پ کی کیا رائے ہے۔‘‘
’’لڑکا تو اچھا ہے مگر۔۔۔۔خان صاحب وہ حیثیت میں آپ کی برابری کے نہیں ہیں۔‘‘
’’یہی تو میں چاہتا ہوں۔دوسری بات یہ کہ کیا وہ گھر داماد بننے کے لئے راضی ہوسکتا ہے ۔‘‘
’’پھر ٹھیک ہے خان صاحب‘‘
کچھ عرصہ کے بعد صاحبہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی اور وہ ازدواجی زندگی کے بندھن میں بندھ گئی ۔گھر میں رونق سی آگئی۔ رشتہ داروں کا آنا جانا بھی لگا رہا اور اب تنویر احمد بھی ان میں گھل مل گیا ۔پھر آہستہ آہستہ زندگی معمول کی پٹری پر آگئی اور منور خان نے کارو با ر کی ذمہ داری تنویر احمد کو سونپ کر خود کنارہ کرنے کافیصلہ کیا۔ وقت گزرتا گیا گھر میں ننھے ننھے بچے کھیلنے لگے۔ اب صاحبہ بھی دن بھر اپنے بابا کے پاس ہی رہتی اور اس کا خیال رکھتی۔ منور خان اب بہت ضعیف ہوگیا تھا اور اکثر کھانستا رہتا۔صاحبہ اس کے کھانسنے پر تلملا اُٹھتی۔ کبھی ایک تو کبھی دوسری دوائی پلاتی رہتی ۔وہ اپنے بابا کو بہت چاہتی تھی۔ایک موقع پر منور خان نے بیٹی سے کہا۔
’’بیٹی اب زندگی زیادہ دیر تک ساتھ دینے والی نہیں ہے۔‘‘
یہ سن کر صاحبہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے بولی ۔
’’بابا ایسا مت بولو۔ میں تمہارے بغیر جی نہیں سکوں گی۔ اللہ مجھے تم سے پہلے اس دنیا سے اُٹھا لے۔‘‘
دونوں میں بے انتہا محبت تھی ۔
ادھر تنویر احمد نے کار وبار کاسب حساب کتاب سنبھال لیا تھا۔ وہ جب بھی گھر آتا صاحبہ سے روکھے پن سے پیش آتا کیونکہ اسے منور خان کی موجودگی بہت ستانے لگی تھی ۔
اس وقت صاحبہ گھر پر نہیں تھی منور خان کو اکیلے دیکھ کر تنویر احمد نے خوب کھری کھوٹی سنائی اورصاحبہ کے بارے میں بھی بُرا بھلا کہا بہت کچھ سننے کے بعد منور خان نے بیٹی کی خوشی اور بھلائی کے لئے گھر سے چلے جانا ہی مناسب سمجھا ۔
کچھ دیر کے بعد صاحبہ گھر لوٹی تو بابا کو موجود نہ دیکھ کر زورزور سے چلانے لگی۔بچو ں سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔وہ پاگلوں کی طرح دوڑ پڑی۔ اپنے بال نوچنے لگی۔ تنویر نے روکنا چاہا تھا مگر ۔۔۔۔۔وہ نہیں رکی ۔بچے بھی روتے بلکتے صاحبہ صاحبہ پکارتے رہے
اگلے دن منور خان کی لاش قبرستان کے احاطے میں دیکھی گئی اور اس کے نز دیک ہی صاحبہ بھی بے جان سی پڑی تھی۔
٭٭٭
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847