باہمی عداوت ،نفرت ،بغض ،اہانت اور الزام تراشی اور ایک دوسرے کا ذکرِ شر، کیا یہ حاملین ایمان اور داعیان اسلام کا شیوہ ہوسکتاہے؟ اس سوال کا جواب ہر مسلمان کے پاس یہی ہے کہ ’’بخدا ہر گز نہیں‘‘ اس لئے کہ مومن فطری طورپر تعمیر کے ساتھ تخریب یا منفی روش کو پل بھر کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ تعلیمات ِاسلام میں تعمیر اخلاق اور بلند کرداری پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔اس سلسلہ میں کہا جاتا ہے کہ آدمی اپنی انفرادی عبادت کا اجر و ثواب حاصل کرے،یہ بہتر ہے اس بات سے کہ وہ خیر خواہی کے جذبہ کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے اہل ایمان بھائیوں کا اللہ نہ کرے گوشت نوچتا پھرے( یعنی ان کی غیبت کرتا پھرے)۔بالفرض کسی آدمی میں کوئی خامی یا عیب نظر آئے تو مومن ہونے کی حیثیت سے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اپنے فریق ِ مخالف کے لئے عذر تلاش کرتا رہے، کسی کو زبان کے چٹخارے میں فاسق وفاجریا نا اہل قرار دینے کی غلط ادا ، افتراء پردازی یا جاہلی عصبیت کے نشہ میں سر مست ہوکر اللہ کے حدود سے تجاوز یا احکام شرع سے سرتابی نہ کرنا مومن ہونے کی نشانی ہے ۔اس لئے کہ اگر کوئی شخص آپ کے سلسلہ میں معصیت خداوندی کا ارتکاب کررہا ہو تو آپ اس سے بڑھ کر اور کیا بہتر اُسے دے سکتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں خدا کے حکم کی اطاعت کریں یعنی بدکلامی کا جواب شیریں کلامی سے،بد اخلاقی کا جواب بلند کرداری سے اور بغض و نفرت کا جواب انس ومحبت سے دیں۔قرآن کریم کی یہ دو آیتیں ہمیں اسی طرف دعوت دیتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ بلند حوصلگی اور اعلیٰ ظرفی انسان کے شرف و کمال کو اونچا کردیتی ہیں:(۱) ’’ بے شک اللہ ان لوگو ں کے ساتھ رہتا ہے جو تقویٰ اختیار کئے ہوتے ہیں اور جو لوگ حسنِ سلوک کرتے رہتے ہیں (النحل)۔ (۲) ’’اور اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرتے رہو تو تم کو ان کی چالیں ذرا بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گی،بے شک اللہ انکے اعمال پر پورا احاطہ رکھتا ہے‘‘(آل عمران)۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے ہر قول و فعل اور تمام حرکت وعمل کو نوٹ کریں اور اسے عدل و انصاف کی میزان میں ناپ تول کر دیکھیں ۔ ’’اور کسی قوم کی عداوت تم کو عدل سے نہ روک دے ،عدل کیا کرو کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے(المائدہ)‘‘ہم اپنے آپ کو اس کتاب کا پیرو کار اور پابند بنائیں جسے اللہ نے انسانیت کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے ہدایت نامہ بناکر نازل کیا ہے اور اختلاف کی ہر سطح اور ہر مرحلہ پراسے حاکم و فیصل بنایا ہے۔قرآن کہتا ہے۔’’ پھر اگر تم میں باہم اختلاف ہوجائے کسی چیز میں تو اسکو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دیا کرو ،اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو‘‘(النساء)۔اللہ تعالی امام حسن البناء شہیدؒ کو جزائے خیر دے کیا خوب بات کہی:’’فروعی اور جزوی مسائل میں اختلاف رکھنے والوں کے لئے ہم ہمیشہ عذر تلاش کرتے اور انہیں معذور سمجھتے ہیں ، ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ اختلاف باہمی رشتۂ محبت ،میل ملاپ، قلبی تعلق ،خیر کے کاموں میں اشتراک و تعاون کی راہ میں کبھی حائل نہ ہو ان فروعی اختلافات کے باوجود ہم اسلام کے وسیع تر معنی و مفہوم میں متحد و مشترک ہیں، ہم سبھی کے مسلمان ہونے کی نسبت سے اسلام ہم پر سایہ فگن ہے۔‘‘کیا ہم سب یہ نہیں چاہتے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے انس و محبت رکھیں؟کیا ہم اس حکم ِشرعی کے پابند نہیں ہیں کہ جو چیز ہم اپنے لئے پسندکریں وہی دوسرے کے لئے بھی پسند کریں؟تو پھر آخر اختلاف کس بات میں ہے؟آخر ہماری اپنی رائے اور فکر دوسروں کے یہاں اور دوسرں کی ہمارے یہاں قابل ِغور اور لائقِ اعتبار کیوں نہیں ہوسکتی؟یقینا ہو سکتی ہے جب مفاہمت کی مشترک بنیادیں موجود ہیں تو کیوں نہ ہم خلوں و وفا کی فضاء اور دوستانہ ماحول میں صلح پسندی اختیار کریں؟ ان تمام باتوں پر غور و فکر سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان وہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ فراخ قلبی سے پیش آتے ہیں،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر قوم اور جماعت کا ایک رہبر و داعی ہے اور ہر دعوت میں حق و باطل کی معرکہ آرائی ہے،وہ حق کی تلاش میں رہتے اور اسے پالیتے ہیں،بڑی نرم خوئی اور سلامت روی کے ساتھ اپنے مخالفین کو اپنے نقطئہ نظر سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر مخالفین ان کے فکر و خیال سے مطمئن نہ ہوسکیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں ہم ان کے لئے اللہ ہی سے ہدایت و توفیق کے خواستگوار ہیں۔
ہم اپنے آپ کو میدان جنگ میں بالکل محسوس نہ کریں بلکہ اپنے آپ کو تعاون و اشتراک کے وسیع میدان میں حرکت و عمل کا خوگر بنائیں اور تعاون کی مضبوط بنیادوں پر عمل کی دیوار اٹھائیں ہم میں سے بعض کے اندر ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے عیوب و نقائص اور کمزوریوں کی اصلاح کرنے کے بجائے دوسروں کی عیب جوئی اور خطا شماری میں مصروف ہوجاتے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ انسان کے سرما یۂ عمل کے ضائع اور برباد ہونے اور قلب کے فاسد ہونے کا اس سے بڑا کوئی سبب نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں کے ظاہر و باطن میں جھانکے،نیک،صالح،اور مصلحین کے عیوب کی جستجوکو اپنا مشغلہ بنائے اور جس شخص کا یہ حال ہو وہ کسی نہ کسی دن اسلام دشمنوں کا آلۂ کار بن جاتا ہے ۔شیخ عبدالرحمان عبدالخالق نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’’ آج مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ’’آستین کا سانپ‘‘کہا جاسکتا ہے،جو دین و شریعت اور اس کے ابدی پیغام کی اشاعت اور کلمۂ حق کی تبلغ میں مشغول ہیں ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بد کرداراور اباحیت پسندوں کو چھوڑکراپنے قلم اور زبان کا نشتر مسلمانوں پر چلاتے ہیں بلکہ ایسے افرادبھی ہرجگہ موجود ہیں جن کا مشغلہ ہی داعیانِ حق کو بدنام کرنا، مختلف قسم کے لٹریچر، مضامین، اور پمفلٹ کے ذریعہ ان کی نیک نامی کو متأثر کرنا، مداہنت اور ظلم پسندوں کی طرف میلان کا الزام دینا،بعض جرائم کے ارتکاب کو ناحق طور پر ان سے منسوب کرنا اور دین کے کسی مسئلہ میں ان کی رائے اور مزاج کے خلاف فتویٰ دینے پر برا بھلا کہنااس طرح کی باتوں میں جب وہ اپنی مرضی کی خلاف ورزی پاتے ہیںتو وہ ان اسلامی داعیوںکی عزّت و آبروکی بے حرمتی کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش میں اپنے وقت کو صرف کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کی سربستہ باتوںاور اندرونِ خانہ مسائل کا سراغ لگ جائے تاکہ وہ انہیں طشت ازبام کرسکیں ،گویا ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ اور دلچسپ موضوع یہ ہوتا ہے کہ وہ داعیانِ حق کے خلاف مخالفتوں کا محاذ کھول دیں ، مسلمانوں کی اجتماعیت اور وحدت میں رخنہ ڈال دیںاور عام لوگوں کے ذہن و دماغ میں ان کے تعلق سے بد گمانی ، نفرت، اورشکوک و شبہات کے کانٹے بودیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زاویۂ نگاہ اور فکر وعمل کا یہ اندازگناہ کبیرہ میں داخل ہے،اور یہ عمل ایمانِ خالص کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے کہ جس کی بنیاد ہی محبت و اخوت پر رکھی گئی ۔ اگر دین و ایمان کی اہمیت ایسے لوگوں کے پاس ہوتی تو وہ اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے یقینا اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت کو اپنا فرض سمجھتے ،ان کے لئے خلوت و جلوت میں دعائیں کرتے،دینی کاموں میں ہاتھ بٹاتے اور خیر خواہانہ جذبات اور مخلصانہ سلوک رکھتے،سنجیدہ اندازمیں خیر اور بہتر بات کی تلقین کرتے،لیکن کیا کیا جائے ان کے سینے کینہ سے بھرے ہوئے ہیں ،دل میں حسد اور بغض و عداوت کی آگ جل رہی ہے اور ذہن و دماغ میں فرسودگی رچی ہوئی ہے،بڑے بڑے منکرات،بے حیائی، خلافِ شرع باتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن ان کے اندر کھٹک پیدا نہیں ہوتی اور ان کے چہرے سے کرب و بے چینی کا ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا۔بے پرواہ ،بے نیاز اور ہر طرح کی حس سے خالی ،ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں،لیکن اپنے دینی وایمانی بھائیوں اور دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کی کو ئی چھوٹی لغزش دیکھتے ہیں تو آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں،چہرے سرخ ہوجاتے ہیں اور ہر محفل میں ان کی مخالفت میں اپنی زبانیں بے لگام چھوڑدیتے ہیں۔میں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ مصلح ، نیک اور خیر خواہ لوگوں کا شیوہ ہے؟یا شرپسندوں ، فتنہ پردازوں یا منافقوں کا طریقۂ کار ہے؟جب کہ ہمارا پروردگار ہم سے کہتا ہے:’’ بے شک اللہ تعالیٰ فتنہ پروازوں کے کردار کو نہیں سدھارتاہے‘‘۔
پتہ :آرگنائزر:جمعیتہ علماء مراٹھواڑہ
09890509295