فن و فسانہ
سیدہ ایمن عبد الستار
دنیا میں کچھ مقامات ایسے ہوتے ہیں جو اپنی خوبصورتی کے ساتھ ایک پراسرار فضا میں لپٹے رہتے ہیں۔ جرمنی کے صوبے سیکسونی (Saxony) میں واقع ’’کرم لاؤ پارک (Kromlau Park)‘‘میں موجود ’’Rakotzbrücke‘‘ یعنی’’شیطان کا پل (Devil’s Bridge)‘‘انہی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ پل اپنی دلکشی، حیران کن ساخت اور پراسرار داستان کی وجہ سے سیاحوں اور فوٹوگرافروں کے لیے ایک خواب بن چکا ہے۔جرمنی کے علاقے کرم لاؤ (Kromlau) کی پرسکون وادی میں، جہاں درختوں کے سائے پانی میں اپنے عکس پر سرگوشیاں کرتے ہیں، وہاں ایک پل ہے جو بظاہر پتھروں سے بنا ہے مگر دراصل فن مہارت اور فسانے سے تراشا گیا ہے۔یہی ہے Rakotzbrücke — دنیا اسے ’’شیطان کا پل‘‘ کہتی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے وقت کے دامن میں ایک گول دائرہ بنا دیا ہو، جو پانی میں اپنے ہی عکس سے مل کر کامل دائرہ بن جاتا ہے۔یہ دائرہ صرف جمالیات نہیں، ایک فلسفہ ہے خوبصورتی اور خطرے، یقین اور وہم کا امتزاج۔جرمنی کے شہر کرم لاؤ (Kromlau) میں واقع یہ پل دنیا کے خوبصورت ترین مگر پراسرار مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اصلی نام Rakotzbrücke ہے، مگر عوامی زبان میں اسے “شیطان کا پل” کہا جاتا ہے۔
تعمیر اور پس منظر :یہ پل 1860ء کے لگ بھگ جرمن معمار فریڈرک ہرمان روکٹس (Friedrich Hermann Rötschke) کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ اس دور میں اسے ایک آرکیٹیکچرل معجزہ مانا جاتا تھا۔ پل چھوٹے چھوٹے بیزالٹ کے پتھروں سے بنایا گیا ہے جو مقامی آتش فشانی چٹانوں سے لائے گئے تھے۔ ان پتھروں کی بناوٹ اور ترتیب اتنی باریک بینی سے کی گئی کہ پل کا محرابی حصہ بالکل گول دائرہ مکمل کرتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ پل جو دیکھنے والا اسے پہلی بار دیکھے، وہ شاید یقین نہ کرے کہ یہ کسی انسان کے ہاتھ کی کاریگری ہے۔پتھروں کی ترتیب، زاویوں کی نزاکت، اور اس کا عکس پانی میں ایسا کامل دائرہ بناتا ہے کہ عقل حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔
شیطان کا معاہدہ:ایک کہانی جو صدیوں سے زندہ ہے۔جرمن لوک داستانوں میں ’’شیطان کے پل‘‘ کا تصور بہت پرانا ہے۔ یورپ کے مختلف خطوں میں ایسے کئی پل ہیں جنہیں Devil’s Bridge کہا جاتا ہے، مگر Rakotzbrücke ان سب میں سب سے زیادہ جادوئی سمجھا جاتا ہے۔
کہانی یوں ہے:ایک معمار نے ایک ایسا پل بنانے کا خواب دیکھا جو کامل ہو، مگر وہ جانتا تھا کہ ایسا کمال انسانی ہاتھوں سے ممکن نہیں۔ تب اُس نے اپنی خواہش شیطان کے سپرد کی۔شیطان نے کہا، ’’میں یہ پل بنا دوں گا، مگر جو پہلا جاندار اس پر گزرے گا، وہ میرا ہوگا۔‘‘پل بن گیا، ایک ہی رات میں — اور اتنا خوبصورت کہ دیکھنے والا سانس لینا بھول جائے۔مگر معمار نے چال چلی۔ اس نے انسان نہیں، بلکہ ایک کتا پہلے پل پر بھیج دیا۔شیطان دھوکہ کھا گیا، اور غصے میں پل کو لعنت دے گیا۔کہتے ہیں اس کے بعد یہاں رات کے وقت پانی سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے، مگر کوئی دکھائی نہیں دیتا۔جمالیاتی کرشمہ : کرم لاؤ پارک کا علاقہ فطرت کا حسین منظر جنگلات، پھولوں، اور چھوٹے تالابوں سے گھرا ہوا ہے۔ جب خزاں آتی ہے تو درختوں کے سرخ اور زرد پتے پل کے اردگرد بکھر کر ایک جادوئی منظر تخلیق کرتے ہیں۔ بہار میں، جب فضا میں نمی اور ہلکی دھند ہوتی ہے، تو پل اور اس کا عکس ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آسمان اور زمین ایک دائرے میں بند ہو گئے ہوں۔یہ پل ایک چھوٹے تالاب پر بنا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ جب آپ کسی مخصوص زاویے سے اسے دیکھتے ہیں تو پل اور اس کا عکس پانی میں ایک مکمل دائرہ بناتے ہیں — ایسا لگتا ہے جیسے آسمان اور زمین مل گئے ہوں۔ یہی منظر اس پل کو فوٹوگرافروں اور سیاحوں کے لیے جنت بنا دیتا ہے۔دنیا میں ایسی بہت سی جگہیں موجود ہیں جہاں فطرت اور فن کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں، جہاں منظر اپنی معنویت سے بڑھ کر کسی دوسرے جہان کی جھلک دکھاتا ہے۔ جرمنی کے علاقے کرم لاؤ (Kromlau) میں موجود Rakotzbrücke — یعنی شیطان کا پل — ایسی ہی ایک جگہ ہے۔ بظاہر یہ پتھروں سے بنا ایک محرابی پل ہے، مگر حقیقت میں یہ جمال اور اسرار کا ایسا دائرہ ہے جو اپنے عکس کے ساتھ مل کر کسی دوسرے وجود کا دروازہ کھولتا محسوس ہوتا ہے۔ بیزالٹ کی آتش فشانی چٹانوں سے تراشا گیا یہ محراب اتنی باریک فنی ترتیب سے جوڑا گیا کہ جب پانی میں اس کا عکس بنتا ہے تو دونوں مل کر ایک مکمل دائرہ تشکیل دیتے ہیں۔یہی وہ منظر ہے جو اسے عام پلوں سے الگ کرتا ہے کیونکہ یہاں پتھروں نے خود اپنی تکمیل اپنے عکس میں تلاش کی۔یہ صرف فنِ تعمیر نہیں، ایک علامت ہے انسان اور فطرت کے درمیان ایسا اتحاد جس میں دونوں اپنی موجودگی سے بڑھ کر فن مہارت بن جاتے ہیں۔
وہ دائرہ محض عکس نہیں، بلکہ پورٹل (portal) کے تصور سے حیرت انگیز حد تک جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے خاص طور پر اگر ہم اسے ادبی، اساطیری اور فلسفیانہ زاویے سے دیکھیں۔آئیے، اس خیال کو ذرا تفصیل سے کھولتے ہیں۔
دائرہ — کمال یا دروازہ؟ :’’شیطان کا پل‘‘ کا سب سے پراسرار پہلو یہی ہے کہ جب پل اور اس کا عکس پانی میں ملتے ہیں تو ایک مکمل گول دائرہ بن جاتا ہے۔اب، دائرہ ہمیشہ سے ازل اور ابد کی علامت مانا گیا ہے ایک ایسا وجود جس کی کوئی ابتدا نہیں، کوئی انجام نہیں۔اسی لیے صوفیانہ اور فلسفیانہ فکر میں دائرہ روحانی تکمیل یا جہانوں کے بیچ کی حد سمجھا جاتا ہے۔لیکن اگر ہم اس دائرے کو محض علامت نہیں بلکہ پورٹل سمجھیں تو بات ایک بالکل نئی سمت میں کھلتی ہے۔
اساطیر کی روشنی میں پورٹل کا مفہوم:دنیا کی تقریباً ہر تہذیب میں’’دروازے‘‘ یا’’راہداریاں‘‘ موجود ہیں جو اس دنیا سے دوسری دنیا میں لے جاتی ہیں۔یونانی اساطیر میں’’ہادیس‘‘ کا دروازہ تھا جو زمین کے نیچے کی دنیا کو جوڑتا تھا۔نارڈک کہانیوں میں ’’بیفراسٹ‘‘ (Bifröst) نامی رنگین پُل جنت اور زمین کو ملاتا ہے۔صوفیانہ ادب میں بھی ’’بابِ عشق‘‘ یا ’’بابِ معرفت‘‘ وہ دہلیز ہے جہاں داخل ہوتے ہی انسان فنا سے بقا میں قدم رکھتا ہے۔تو پھر کیا بعید ہے کہ Rakotzbrücke کا وہ دائرہ جو صرف ایک زاویے سے مکمل دکھائی دیتا ہے دراصل ایک جہانِ دیگر کا دروازہ ہو؟ایک ایسا لمحۂ انکشاف جہاں دنیا، عکس، روشنی اور اندھیرا سب ایک لکیری ترتیب میں آ کر ایک مکمل وحدت بن جاتے ہیں۔
پانی یا آئینہ ؟:پانی ہمیشہ سے عالمِ غیب اور عالمِ ظاہر کے درمیان ایک باریک پردہ سمجھا گیا ہے۔اس پل کے نیچے جو پانی ہے، وہ ایسا آئینہ ہے جو صرف عکس نہیں لوٹاتا بلکہ روح کے اندر چھپے عکس کو جگا دیتا ہے۔جب پل اور اس کا عکس مل کر دائرہ بنتے ہیں، تو یہی لمحہ پراسرار ہوتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں فلسفہ فن سے جا ملتا ہے جہاں جمالیات metaphysical بن جاتی ہیں۔ اس پل کا سب سے پراثر پہلو وہ لمحہ ہے جب محراب اور اس کا عکس مل کر کامل دائرہ بناتے ہیں۔ادب، مذہب، اور فلسفے میں دائرہ ہمیشہ ازل و ابد، فنا و بقا، اور روحانی سفر کی علامت رہا ہے۔یہ وہ شکل ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں، کوئی انجام نہیں۔اگر اس تصور کو آگے بڑھایا جائے، تو وہ دائرہ صرف ایک عکاس منظر نہیں بلکہ ایک پورٹل (portal) بن جاتا ہے ایک ایسا دروازہ جو اس جہان سے کسی دوسرے جہان کی طرف کھلتا ہے۔پانی کے اندر موجود عکس گویا متوازی کائنات کا آئینہ ہے۔اور پل کا اصل مقصد شاید وہی ہو کہ انسان اپنے عکس میں داخل ہونے کا حوصلہ پائے۔
فطرت کی فکری دلیل:جب ہم Rakotzbrücke کے عکس کو دیکھتے ہیں تو وہ منظر کسی طلسمی توازن کی مانند لگتا ہے جہاں روشنی اور سایہ، ٹھوس اور مائع، حقیقت اور عکس سب ایک ہی لمحے میں جمع ہو جاتے ہیں۔یہ دائرہ گویا فطرت کی دلیل ہے کہ ہر چیز اپنی ضد میں مکمل ہوتی ہے۔پتھر تب مکمل ہوا جب پانی نے اسے منعکس کیا۔
پورٹل کی تمثیل میں شیطان کا کردار:اگر ہم کہانی کو اس زاویے سے دیکھیں تو شیطان دراصل وہ طاقت ہے جو دوسرے جہان کا دروازہ کھولتی ہے۔ شیطان کا پل شاید اسی آرزو کی پیداوار ہے ایک ایسی تخلیق جو انسانی حدوں سے آگے نکلنا چاہتی تھی،اور اس کی قیمت کسی روح، کسی ضمیر، کسی وعدے میں ادا ہوئی۔
ادبی تاویل :ادب میں ’’پورٹل‘‘ ہمیشہ تبدیلی کا استعارہ ہوتا ہے۔جب کوئی کردار کسی دروازے، آئینے یا دائرے سے گزرتا ہے، تو وہ پہلے جیسا نہیں رہتا۔تو شاید “شیطان کا پل” بھی صرف ایک پل نہیں شاید ایک انجانی دہلیز ہو جہاں سے گزرنے والا انسان خود کو، اپنی دنیا کو، اور اپنے یقین کو نئے زاویے سے دیکھنے لگتا ہے۔
موجودہ حالت :وقت کے ساتھ پل کی ساخت کمزور ہو گئی، اسی لیے اب اس پر چلنا منع ہے۔ جرمن حکومت نے اسے تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ کیا ہے۔ تاہم، سیاح اب بھی پارک کے اردگرد گھوم سکتے ہیں، اور ایک مخصوص زاویے سے اس پل کو دیکھ کر وہی جادوئی منظر محسوس کر سکتے ہیں جو صدیوں سے لوگوں کو حیران کرتا آیا ہے۔آج یہ پل سیاحوں کے لیے بند ہے تاکہ اس کی تاریخی ساخت کو نقصان نہ پہنچے۔لیکن زائرین اب بھی پل کے اردگرد Kromlau Park میں سیر کر سکتے ہیں اور دور سے اس کا جادوئی منظر دیکھ سکتے ہیں۔ بہار اور خزاں میں جب درختوں کے رنگ بدلتے ہیں، تو یہ جگہ کسی پریوں کی کہانی جیسی لگتی ہے۔
دلچسپ حقیقت : اس طرز کے’’Devil’s Bridge‘‘یورپ کے کئی ممالک میں موجود ہیں، مگر Rakotzbrücke سب سے زیادہ مشہور اور بصری طور پر دلکش مانا جاتا ہے۔یہاں فلم ساز اور فوٹوگرافر اکثر فینٹسی اور میتھیکل مناظر کے لیے شوٹنگ کرتے ہیں۔
[email protected]