سہیل سالم
جموں کشمیر کے غیر سرکاری ادارے اور سرکاری ادارے بھی زبان و ادب کی خدمت کرنے میں محو نظر آتے ہیں، جن میں جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ ،کلچر اینڈ لینگویجز کا شعبہ اردو زیادہ ہی متحرک نظر آتا ہے ۔جموں اینڈکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ ،کلچر اینڈ لینگویجز کے شعبہ اردو سے ما ہنامہ شیرازہ کا تازہ شمارہ جموں وکشمیر کے کہنہ مشق افسانہ نگار ،ڈرامہ نویس اور کالم نگار’’ گوشہ نور شاہ‘‘ پر مشتمل ہیں۔ جموں وکشمیر کے فکشن نگاروں میں نور شاہ کا شمار صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔انھوں نے فکشن کی جو گراں قدر خدمت کی ہے ،اس کا معترف ایک زمانہ ہے۔افسانے ہو یا ناول ،ڈائری ہو یا ڈرامہ ،کالم ہو یا ادبی تاریخ، انھوں نے اپنی تخلیقی قوت سے ادب کے گلستان میں جدت وانفردیت کے گل بوٹے کھلائے ہیں۔364صفحات پر مبنی اس شمارے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔نیز ہر ایک حصے کاذیلی باب ہے۔اس شمارے کا حصہ اول ’’گوشہ نور شاہ‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ 14 مضامین سے سنوارا گیا ہے ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں :شاہدہ شریں سے نور شاہ تک کا سفر ،از ٹھاکر پونچھی ،نورشاہ فطری جبلت کا افسانہ نگار، از پروفیسر شکیل الرحمان ،نور شاہ تخیل و تفکر کا حسین امتزاج، از پروفیسر حامدی کاشمیری ،نور شاہ ایک دلنشین کولاج کا خالق، از محمد یوسف ٹینگ ،نور شاہ سماج کا آئینہ، از شکر ناتھ ،نور شاہ معاصر دور کا قدآور افسانہ نگار، از پروفیسر قدوس جاوید ،نور شاہ دلچسپ شخصیت کا مالک، از پروفیسر مجید مضمر،نور شاہ اور میں ،از وحشی سعید ،نور شاہ افسانوی افق کا تابناک ستارہ، از راجہ نذر بونیاری ،نور شاہ کا تخلیقی سفر، از دیپک بدکی ،نور شاہ کے افسانوں میں حقیقت کی عکاسی ،از محمد یوسف مشہور ،نور شاہ کشمیر میں اردو افسانے کا سرخیل، از ڈاکٹر مشتاق احمد وانی ،دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو، از محمد سلیم سالک اور نورشاہ کے افسانوں میں رومانیت ،از فاروقی احمد وانی ۔اس میں نور شاہ کی زندگی ،فن اور شخصیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ نور شاہ کے فن پر جب کبھی بھی گفتگو کی جائے تو ایک ایسا خاکہ ذہن میں اُبھر جائے، جس سے ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔بقول پروفیسر حامدی کاشمیری:’’’ نور شاہ ریاست کے ایک معتبر اور معروف افسانہ نگار ہیں ۔انہوں نے کئی افسانوں مجموعے شائع کئے ہیں،میں برابر ان کے افسانوں کا قاری رہا ہوں۔نور شاہ لگ بھگ میرے ساتھ ہی پشکر ناتھ سمیت ایک عرصے تک ’بیسویں صدی‘ میں چھپتے رہے، جموں کے قیام کے دوران ان سے میری ملاقات بھی رہی ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک طویل عرصے تک خانہ نشین ہوکے رہ گئے ،مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ وہ خرابی صحت کی وجہ سے یا خرابی حالات کی بناء پر ہوگئے۔بہر حال کوئی وجہ کیوں نہ ہو،وہ اس عرصے میں لکھنے سے دست بردار نہیں ہوئے تھے ۔اس کا ثبوت ان کی کتابیں ’’بند کمرے کی کھڑکی‘‘،’’کہاں گئے وہ لوگ ‘‘،’’آسمان پھول اور لہو ‘‘،’’بے ثمر سچ ‘‘ہیں، جو چھپ چکی ہیں ۔جب میں نےان کی یہ کتابیں دیکھ لیں تو انکشاف ہوا کہ یہ وقفہ incubatory وقفہ رہا ہے۔‘‘(ص 41)
نور شاہ فکشن کا ایک اہم دبستان تصور کیا جاتا ہے۔جنہوں نے تخلیق و تحقیق میں کارہائے نمایاں انجام دیئے اور آج بھی ان کا سفر پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔اپنی ادبی زندگی کا آغاز کشمیری زبان سے کرنے والے فکشن نگار نور شاہ ادبی فلک کی بلندیوں پر اپنا مسکن بنانے میں پوری طرح کامیاب ہوگئے،یہ کسی کے ذہن میں بھی نہ تھا ۔نور شاہ کی اب تک اردو میں 30سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔بقول نور شاہ :’’تخلیقی سفر کے دوران میری کہانیاں ان گنت رسائل وجرائد میں شائع ہوتی رہتی ہیں جن کی تعداد لگ بھگ 60 سے زائد ہے۔جن میں بہت سارے رسائل بند ہوچکے ہیں ۔اخبارت میں کبھی کبھار میرے افسانے /افسانچے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔لیکن کشمیر عظمیٰ کا ذکر خصوصی طور سے کرنا چاہوں گا ۔افسانوں کے علاوہ میرا ایک ادبی کالم بھی کئی سال تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہتا ہے۔میرا تخلیقی سفر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اپنے چاہنے والوں کی محبت اور شفقت سے ابھی جارہی ہے ،اگر صحت رہی اور قلم نے ساتھ دیا تو شاید کبھی آنے والے دنوں میں اپنے تخلیقی سفر کی ایک اور کہانی سنا سکوں گا۔یار زندہ محبت باقی !(ص۔30)
نور شاہ نے کلاسیکی ادب کا بھی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔وہ جہاں ایک طرف اردو کے قدیم و جدید فکشن سے واقف ہیں،وہیں دوسری طرف ادبی تحریکوں اور رجحانات سے بھی آشنا ہیں۔ان کے وسعت مطالعہ نے ان کی تخلیقی فکر میں ایک نازک احساس ،گہرائی اور گیرائی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔وہ کسی بھی فن پارے کا مطالعہ غیر سنجیدگی کے ساتھ نہیں کرتے۔نورشاہ ادبی روایت اور ادب میں پیدا ہونے والی نئی فضا سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے بلکہ ان کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں۔پروفسر قدوس جاوید:’ ’’کشمیر کی سماجیات ،سیاست ،معاشیات اور ثقافت میں جو غیر متوقع اتار چڑھاؤ پیدا ہوئے، اس کے سبب ساٹھ سال کے عرصے کو محیط کشمیر کا یہ پورا زمانہ گویا رنج و الم ،جبر و زیادتی کا گواہ بن گیا ۔ایک وقت تھا جب دوسروں کی طرح نور شاہ کے لئے بھی کشمیر بہشت تھا،جہاں ہر طرف زندگی امن و آشتی اور حسن و عشق سے عبارت تھی۔بیسویں صدی کے اخیر تک نور شاہ کے اکثر و بیشتر افسانوں میں جس احساس جمال کے مرقعے یہاں وہاں نظر آتے ہیں، وہ ان کے رومانی اور جمالیاتی مزاج (Aesthetic Passage) کا پر تو ہیں ۔’’میں اور نور شاہ‘‘ میں وحشی سعید نے نور شاہ اور اپنی ابتدائی ادبی زندگی کے چند خوش گوار لمحوں کو ایک سنہری مالا میں پرو کر اپنے ادبی دوست کو اعلیٰ منصب پر فائز کیا ہے ۔
اس شمارے کا دوسرا حصہ ’’نور شاہ ،مشاہیر کے آئینے میں‘‘ پر مبنی ہے۔جس میں اردو کے قد آور افسانہ نگاروں ،تنقید نگاروں اور شعراءنے نور شاہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کر کے ان کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی تخلیقی قوت میں اضافہ کیا ہے۔’’تحفہ درویش ‘‘شمارے کا تیسرا حصّہ ہے ۔جس میں نور شاہ کے تین افسانے ،آٹھ افسانچے ،ایک ڈرامہ اور ایک نولٹ شامل ہے ۔گلاب کا پھول ،ایک لمحے کی جنت اور ایک لمبی عمر کی تنہائی میں نور شاہ نے سماج کے مختلف شعبوں کی المناک صورت حال،انسانیت کی پامالی اور انسانی نفسیات کے مختلف رنگوں کا عکس بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔افسانے(گلاب کا پھول ) کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’اس میں میرا کیا قصور ہی ہمارے گھر میں جب سے گلاب کے پھول کھلنے لگے ہیں ۔میری بیوی ہر روز صبح میرے کوٹ میں ایک پھول لگا دیتی ہے اگر رانی خودہی پھول کوٹ سے اُتارے اور اس کی کہانی بنا ڈالے تو اس میں میرا کیا دوش ؟‘‘
میں خاموش ہوگیااور دوسرے دن بڑے صاحب کو سلام کر کے نئے دفتر میں تبادلہ کروالیا ،آج بہت مدت کے بعد شام بابو کے کوٹ میں گلاب کا پھول دیکھ کر مجھے نہ جانے کیوں بھولا بابو اور رانی یاد آگئے،حالانکہ نئے دفتر میں شام بابو تو ضرور ہے بالکل بھولا بابو کا گھمبیر روپ ۔لیکن رانی کوئی نہیں۔۔!!‘‘(ص۔120)
حصہ ’’ادبی مذاکرہ ‘‘ میں اردو افسانے پر اردو کے معتبر افسانہ نگاروں کا بحث و مباحثے بھی شاملِ حصہ ہے۔سفر نامہ ’’داستان گلستان‘‘ جو کہ ڈاکٹر عرفان عالم کے سفر نامہ ایران کی ایک دلچسپ قسط پر مبنی ہے۔شمارے کےایک اور حصے کو افسانوں سے سنوارا گیا ہے ۔جس میں سلام بن رزاق کا ندی ،اقبال حسن آزاد کا جادوگر اور راجہ یوسف کا کھلے دروازے کا کرب وغیرہ میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔اشرف عادل کا ریڈیائی ڈراما بہ عنوان ’’ڈھلتے سائے‘‘میں انسانی قدروں کا زوال نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔
حصہ ’’تبصرہ کتب ‘‘میں تین تبصرے بھی شامل ہے ۔مجموعی طور پر ماہنامہ ’’شیرازہ کا گوشہ نور شاہ‘‘ کا یہ گوشہ ’’نور شاہ‘‘ کی حیات وخدمات کا جامع احاطہ کرتا ہے اور ہمارے عہدے کے اس بہترین فکشن نگار کے مداحوں کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔رسالے کے فلیپ پر نور شاہ کی تصویر بھی موجود ہے۔ چھپائی اور کاغذ بہت عمدہ استعمال کیے گئے ہیں۔امیدی قوی ہے کہ جموں اینڈکشمیر اکیڈیمی آف آرٹ ،کلچر اینڈ لینگویجز کے شعبہ اردو سے شائع کردہ ماہنامہ شیرازہ’’ گوشہ نور شاہ‘‘ ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوگا، نیز قارئین اس کے مطالعے سے اپنے ذوق کو سیراب کریں گے۔
)رعناواری سرینگر ، رابطہ۔9103654553)