ڈاکٹر عریف جامعی
’’علم‘‘ یا ’’جھنڈا‘‘ کسی جماعت یا ریاست کی کامرانی، فتحیابی، وقار، استحکام اور سالمیت کا نشان یا استعارہ ہوتا ہے اور جب یہ جھنڈا لہراتا ہے تو یہ اس چیز کا واضح اعلان ہوتا ہے کہ کوئی خاص جماعت یا ریاست فتحیاب ہوئی اور وہ مستحکم بھی ہے۔ تاہم کسی مخالف جماعت یا ریاست کے ساتھ برسر پیکار ہوتے وقت جھنڈا ہراول دستے میں امیر کاروان یا اس کے کسی جرأت مند معتمد کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایک علم بردار کے ایمان و ایقان اور جرأت و ہمت کا اندازہ لگانے کے لئے صحابئ رسولؐ، سیدنا مصعب ابن عمیر کا ذکر برمحل ہوگا جو بدر و احد میں اسلام کے علمدار تھے۔ جنگ احد میں نبی کریمؐ کا دفاع کرتے ہوئے جب ابن قمیۂ لیثی نے آپ کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالا تو آپ نے علم اپنے بائیں ہاتھ میں اٹھا لیا۔ جب آپ کا بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو آپ نے پرچم اپنے بازوؤں سے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ اس کے بعد آپ شہید ہوئے۔
ہم جانتے ہیں کہ شیخ نورالدین ؒ نے کوئی محسوس یا ٹھوس علم بلند نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ آپ کسی سیاسی قوت کے خلاف برسر پیکار بھی نہیں تھے۔ لیکن آپ کے القاب میں “علمدار” مقبول ترین لقب ہے۔ شیخ ؒ کے حالات و کوائف، کلام و بیان اور سعی و جہد کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ رزم گاہ روحانیت و مادیت اور کشاکش نور و ظلمات میں روحانیت اور نور کے سالار اور علمدار بنے رہے۔ آپؒ نے اگرچہ ’’خنجر توڑ کر اسے درانتی میں تبدیل کیا تھا‘‘ (کرتل پھوٹرٔم گٔرمس درآتی)، لیکن ’’جہاد زندگانی‘‘ سے آپؒ کبھی بھی کنارہ کش نہیں ہوئے۔ یعنی آپؒ نے اپنی تمام تر توجہ نفس کے ساتھ جہاد کی طرف مبذول کی۔ تاہم اس جدوجہد کو آپؒ نے نہ صرف اپنا انفرادی رویہ بنایا، بلکہ اسے آپؒ نے ایک عوامی (رشی) تحریک میں تبدیل کیا۔ واضح رہے کہ رب تعالیٰ نے ’’جہاد بالقرآن‘‘ (الفرقان، ۵۲) کو ہی ’’جہاد کبیر‘‘ (بڑی جدوجہد) قرار دیکر توعیظ و تبلیغ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ قرآنی تعلیمات کی اپنے قول و فعل سے تشریح و توضیح کرکے شیخ ؒ نے علم و عرفان کی مشعل کو فروزاں کیے رکھا۔
واضح رہے کہ رشی تحریک کی علم برداری سے قبل بھی شیخ ؒ “نند” (خوبصورت، عقلمند، دانا) کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ اس لفظ (نند) کے معنی شیخ ؒ نے اپنے کئی اقوال میں واضح کیے ہیں، جیسے:
نندیں سئتی خوئے کئرزے
رٕتی بندء روے قٔبلس کنے
یعنی ’’خدا کے (ان) نیک بندوں کی صحبت اختیار کر جو ہر دم قبلہ رو (یعنی خیر کے کاموں میں سرگرم) رہتے ہیں۔‘‘ اس کے برعکس اگر تو نے (اے انسان) بروں کی مصاحبت اختیار کی، تو تیرے دل کا نور اور چہرے کی تجلّی جاتی رہے گی۔‘‘ شیخ ؒ کے اپنے الفاظ میں:
بدن سٕتین خوے نو تھٔوزے
زن اژکھ تمہٕ نین بانن منز
شیخ ؒنے لفظ ’’نند‘‘ کی ضد ’’کند‘‘ کو اس طرح برتا ہے:
کندیو کورتھ میونی میونی
ینژھا دتو تٔہنزے وتے
یعنی ’’اے میرے نادان نفس! تو ہمیشہ مال و زر سمیٹنے میں لگا رہا۔ کچھ تو ذرا اس (خدا) کی راہ میں بھی خرچ کر!‘‘
اس طرح ’’نند‘‘ (نیک، خوبصورت، دانا) وہی کہلائے گا، جسے اپنے نفس کی پہچان حاصل ہوجائے۔ تاہم یہ پہچان اسی صورت میں عرفان کہلائے گی جب یہ حواس اور تجربات کے حاصلات علم کے ساتھ ساتھ باطنی حواس کا ما حاصل بھی ہو۔ اس طرح سے اس میں وجدانی علم بھی شامل ہے۔ صاحب عرفان شخص حیات اور کون و مکان کے متعلق جو جوابات پاتا ہے، وہ انہیں بھی سوالات کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال شیخ ؒ کے وہ “شروکی” (اشعار) ہیں جو انہوں نے رشیت کی تاریخ پر کہے ہیں۔ آپ ؒ ساتویں رشی یعنی اپنے آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
سٔتمس کٔرہم ہشنو دٔشی
بہ کس رشی مہ کیا ناو
یعنی رشی تحریک کے علمبردار ہونے کے باوجود شیخ ؒ اپنے کسر نفسی کی وجہ سے اس بات کا برملا اظہار فرماتے ہیں کہ ’’مجھے جو ساتویں رشی کے طور پر مشہور کیا گیا ہے، کیا میں حقیقت میں رشی ہوں؟ (اور اگر ایسا ہے تو) میرا نام کیا ہے؟‘‘
تاہم کشمیریوں نے من حیث القوم اس بات پر اتفاق کیا کہ یہاں پر نور عرفان کے کاروان کی ’’علمداری‘‘ کا حق اگر کسی کو حاصل ہے، تو وہ شیخ نورانی ؒ ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کے لئے ’’ژے شوبی علمداری‘‘ (یہاں کی علمداری آپ کو ہی زیبا ہے) کہا گیا، تو اس کو ہر دل نے قبول کیا۔ ایسا ہونا ہی تھا، کیونکہ شیخ ؒ نے رب کی وحدانیت اور اس پر مبنی اعمال صالحہ کو اتنا عام کیا تھا کہ کشمیر صدق و صفا کی اسی تجلّی سے نہا اٹھا تھا۔ اپنے اعمال و اقوال سے شیخ ؒنے اپنے ہم وطنوں کو “رب سے کیا ہوا وعدہ بھی یاد دلایا تھا” اور ’’اس وعدے پر مبنی طرز زندگی اپنانے پر آمادہ بھی کیا تھا!‘‘ اس سلسلے میں شیخ فرماتے ہیں:
وعدہٕ کورتھ تہٕ کربا
تہ کربا ژیتس پیی
اوت ژے ژونتھ خر با
یہ سآنژ مژٕے کونگ وار کھیی
تتہ کس با داری تھر با
ییتہ نٔنس کرتل پیی
مرنہٕ برونٹھے مر با
مٔرتھ مرتبہ ییی
یعنی ’’تو نے (اے انسان) جو وعدہ (عہد الست) کیا ہے، یہ وعدہ آپ کے لاشعور اور تحت الشعور میں موجود ہے۔ اس لئے آپ اس کا شعوری سطح پر ادراک حاصل کرلے۔ اس کے بجائے تو نے اپنے دل میں گدھے (شیطان) کو جگہ دی ہے، جو تیرے نخلستان عمل کو غارت کرے گا۔ آپ کو وہاں (آخرت) کا خیال کرنا چاہئے، جہاں آپ بے یارومددگار عذاب الہی میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ (اس لئے) مرنے سے قبل ہی وہاں کی تیاری کرلے تاکہ مرنے کے بعد تجھے کامیابی حاصل ہوسکے۔‘‘
تاہم خدا کے ہاں ایسا بلند مرتبہ حاصل کرنے کے لئے ’’مشاہدہ‘‘ کو ’’مجاہدہ‘‘ میں ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم کو تقریر و تحریر کے ساتھ ساتھ عمل اور رویہ بنانا پڑتا ہے۔ اسی صورت میں علم و عمل میں ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب عمل علم کے ساتھ مطابقت اختیار کرے گا، اسی صورت میں رب تعالی کی رضا حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ خدا کا فرمان ہے: ’’اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔‘‘ (الصف، ۳) اس سلسلے میں شیخ ؒ فرماتے ہیں:
پران پران تہ پرٕ گئے
تم خر گئے کتابہٕ بوراہ ہیتھ
یم دلہٕ نش با خبر گئے
تم نر گئے فضٕل تہٕ عطا ہیتھ
یعنی ’’کچھ لوک پڑھ کر بھی حقیقی علم سے نا آشنا رہتے ہیں۔ ان کی حالت ان گدھوں جیسی ہوتی جن کے اوپر کتابیں لدی ہوتی ہیں (اور وہ علم و عقل سے عاری ہوتے ہیں)۔ البتہ جو علم پڑھ کر دل سے اثر قبول کرتے ہیں، وہی جرأت مند (صاحب عظیمت) رب تعالی کے فضل اور بخشش کے مستحق قرار پاتے ہیں۔‘‘
جس انسان کو عرفان ذات حاصل ہوتا ہے، وہ یہ حقیقت کبھی بھول نہیں سکتا کہ اس کی اصل مٹی ہے۔ یہ دراصل ذات باری تعالی کا کمال ہوتا ہے کہ انسان کو مختلف میدانوں میں بلندی عطا ہوتی ہے۔ قرآن نے یہ بات اس طرح واضح کی ہے: ’’اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘ (طٰہٰ، ۵۵) حضرت شیخ ؒ اسی بات کی وضاحت کچھ اس طرح فرماتے ہیں:
آدم ووپدوون میژی
میژہ ہندی کر گٔنڈتھ کیتھ
ساریے نعمٍژہ ووپدان میژی
رنان میژوین بانن کیتھ
زو ژیلہ نیرتھ مور موژ میژی
میژیے میژ گژھ میلتھ کیتھ
یعنی ’’انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ تو نے (اے انسان) مٹی کی دیوارین (بلند و باللا عمارتیں) کیونکرکھڑا کیں۔ (یاد رکھ!) تمام نعمیں مٹی سے ہی اگتی ہیں اور مٹی کے برتنوں میں ہی پکائی جاتی ہیں۔ جان نکلتے ہی بدن مٹی کے سپرد کیا جائے گا۔ یعنی بڑے عجیب انداز میں مٹی کے ساتھ مٹی کا ملاپ ہو جائے گا۔‘‘
نور عرفان سے بہرہ ور شخص کو کئی حقائق کا ادارک حاصل ہوتا ہے۔ اسے نفع بخش اور لایعنی اعمال میں تفریق کرنے کا گر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مفید کاموں کا خوگر ہوجاتا ہے اور فضول کاموں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ایسے لوگ ’’لغویات سے پرہیز کرتے ہیں۔‘‘(المؤمنون، ۳) شیخ ؒ فرماتے ہیں:
دود ترآوتھ آب یس مندے
سی سمسارس کندے زاو
پر تہ پان یس ہیوی ویندے
سی ہباہ سیندے تٔرتھ دراو
یعنی ’’جو دودھ چھوڑ کر پانی سے ملائی (مکھن، گھی) حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس نادان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ جو اعلی اخلاق کا نمونہ پیش کرکے اپنے پرائے میں امتیاز نہیں برتتا، وہ معاشرتی زندگی کے دریا (دریائے سندھ) کو پار کرلیتا ہے۔‘‘
شیخ ؒکو عرفان کے دونوں ابعاد (ڈائمینشنز) کا پورا ادراک حاصل تھا۔ اسی لئے آپؒ عرفان نظری (جس میں مشاہدات کی عقلی تبیین کی جاتی ہے) کے ساتھ ساتھ عرفان عملی (جس میں نفس کو برائیوں سے بچنے کے لئے اقدامات کیے جاتے ہیں) پر بھی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ عرفان کی ان دونوں سطحوں کا اظہار فرماتے ہیں اور اس طرح آپ ؒنور عرفان کے بجا طور پر ’’علمدار‘‘ ہیں!
(مصنف گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔: 9858471965
�������������������