سرینگر//نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ کسانوں نے 11ماہ تک اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اس دوران 700سے زیادہ کی جانوں کا اتلاف ہوااور بالآخر متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لیا گیا، ہمیںبھی حقوق کی بحالی کیلئے ایسی ہی قربانیاں دینا پڑیں گی، لہٰذا لوگ تیار رہیں۔ شیخ محمد عبداللہ کی سالگرہ کے موقعے پر یوتھ نیشنل کانفرنس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ جس طرح مرکز نے 3 متنازعہ زرعی قوانین واپس لئے ویسے ہی انہیں جموں وکشمیر کے متعلق لئے گئے فیصلوں کی طرف بھی دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کبھی خونریزی کی حامی نہیں رہی ہے بلکہ عوام کے حقوق کی بحالی ہماری منزل ہے اور ہم اُسی جانب گامزن ہیں اور صحیح سمت میں جارہے ہیں۔ڈاکٹر فاروق نے کہا ’’ ایسا کہا جارہا ہے کہ پتہ نہیں کب ہمارے حقوق واپس ملیں گے، لیکن اس کیلئے آپسی اتحاد و اتفاق کی بے حد ضرورت ہے‘‘۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر سے متعلق ملک کو نئی دلیلیں سنائی جارہی ہیں، دلی میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ یہاں امن ہے اور ٹورازم بڑھ گیا ہے۔’’ کیا ٹورازم ہی سب کچھ ہے‘‘، آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ یہاںکے نوجوانوں کو 50ہزار سے زیادہ نوکریاں ملیںگی، لیکن پنجا ب اور ہریانہ کے اُمیدواروں کو یہاں کے بینکوںمیں ملازمتیں دیں اور یہاں کے ملازمین کو برخاست کرکے جبری طور پر ان کا روزگار چھین رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہا ں کے حالات کا اندازہ اخبار اور میڈیا پر دبائو سے ہی پتہ چلتا ہے، اگر کوئی زمینی صورتحال کی ذرا سی بھی حقیقی تصور پیش کرتا ہے تو اُسے سیدھے تھانے بلایا جاتاہے اور نئی دلی سے اس بات کے دعوے کئے جارہے ہیں کہ یہاں امن اور آزادی ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ جس طرح حیدر پورہ انکائونٹر میں مارے گئے بے گناہوں کی لاشوں کے مطالبے کیلئے لوگوں نے آواز اُٹھائی اور سب نے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ، ہمیں ایسے ہی اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے، ابھی بھی ایک نوجوانوں کی لاش واپسی نہیں دی جارہی ہے اور ہم اس مطالبے کو دہراتے ہیں کہ گول کے اس بچے کی لاش واپس اُس کے والدین کے سپرد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس خون ناحق کا جواب دینا پڑے گا، کوئی نہیں بچے گا سب کو جواب دینا ہوگا۔