وہ زمانہ رخصت ہوگیا جب ہندوستان میں فارسی کا طوطی بولتا تھا۔ ابھی ماضی قریب کی بات ہے دینی مدارس کے عربی درجات میں داخلے سے قبل کم از کم ایک سال طالب علم کو فارسی پڑھنا پڑتا تھا۔جن میں شیخ سعدیؔ کی’’ گلستاں بوستاں‘‘ کے علاوہ فارسی کی پہلی اور دسری کتاب، آمد نامہ، تیسیر المبتدی،وغیرہ کتابیں بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھائی جاتی تھیں۔حتیٰ کہ عربی کی پہلی اور دوسری جماعتوں میں بھی صرف ونحو کی جو کتابیں پڑھائی جاتی تھیں وہ بھی فارسی میں ہی ہوتی تھیں۔ جیسے کہ پنج گنج، میزان منشعب، نحو میر، علم الصیغہ وغیرہ ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فارسی ادبیات کے زیر اثر شیخ سعدی جیسے ادیب وشاعر، دانشور حکیم اور صوفی منش انسان کی گلستاں بوستاں جیسی مشہور زمانہ اور نامی گرامی کتابوںکی تدریس کے بہانے بچوں کی اچھی خاصی خاموش اخلاقی تربیت ہوجاتی تھی۔لیکن اب یہ کتابیں ہندوستان میں تقریبا عنقاد ہوگئی ہیں۔ نئی نسل کے کم ہی لوگ ان کتابوں سے یا شیخ سعدی کی پند ونصائح سے مستفید ہوتے ہوں گے۔
شیخ سعدیؔ کو فارسی شاعری خاص طور سے فارسی غزل کا امام سمجھا جاتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حافظ اور ان کے بعد آنے والے شعراء نے فارسی شاعری کی جو پرشکوہ عمارت بنائی اس کی بنیاد شیخ سعدی نے ہی رکھی تھی۔برصغیر میں شیخ سعدی کو فارسی شاعر کی حیثیت سے بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن جو لوگ’’ گلستاں ‘‘اور ’’بوستاں ‘‘سے یا شیخ سعدیؔ کی تخلیقات سے واقف ہوں گے، انہیں معلوم ہوگا کہ شیخ کو جس طرح فارسی نثر اور نظم پر دسترس حاصل تھی ۔اسی طرح انہیں عربی زبان پر بھی یکساںعبور حاصل تھا۔ گلستاں اور بوستاں کے صفحات پر بکھرے ہوئے عربی شعر وسخن کے نادر نمونے اس بات کی شہادت دیتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ شیخ سعدی پیدا تو شیراز میں ہوئے مگر ان کی علمی اور ادبی تربیت عالم عرب میں ہوئی۔شیراز اس وقت علم وادب کا مرکز تھا مگر بدامنی اور طوائف الملوکی کی وجہ سے شیخ نے بغداد کا سفر کیا اور علامہ طوسی کے مدرسہ نظامیہ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں انہوں نے فقہ وتصوف کی کتابیں اس وقت کے مشہور زمانہ اساتذۂ کرام سے پڑھیں جن میں شہاب سہرورودی (م ۶۳۲ء) اور علامہ ابن الجوزی(م۶۵۴ء) قابل ذکر ہیں۔درس نظامیہ سے فراغت کے بعد شیخ سعدیؔ شیراز واپس آئے مگر بد امنی بدستور جاری تھی۔ لہٰذا انہوں نے سیاحت کی ٹھان لی اور عرب وعجم کا سفر کیا۔ ہندوستان آئے۔ حجاز گئے۔کئی مرتبہ حج کیا۔مکہ ومدینہ میں قیام کیا۔ دمشق میں ایک عرصے تک قیام کیا۔ شام، مصر، عراق اور انتولیا کی بھی زیارت کی۔(تاریخ ادب عربی ۔عمر فروخ، وکی پیڈیا) مولانا حالی لکھتے ہیں’’ اس کے قویٰ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس نے دس بارہ حج پاپیادہ کیے تھے اور اپنی عمر کا بہت بڑا حصہ صحرا نوردی اور بادہ پیمائی میں بسر کیا ‘‘ (حیات سعدیؔ ص ۲۴۰) مزید کہتے ہیں کہ ’’اس نے پاپیادہ ہی سفر نہیں کیے بلکہ بعض اوقات ننگے پانو چلنے کا بھی اتفاق ہوتا تھا‘‘ (ایضاً ص۲۴۰)
اس کے بعد وطن واپس آئے اور شعر وتصوف کے لیے خود کو وقف کردیا۔
آپ کا نام مشرف الدین تھا۔والد کا نام مصلح الدین عبد اللہ شیرازی تھا۔غالبا ۵۸۹ھ (۱۳۳۳ء) میں پیدا ہوئے اور ۲۹۱ھ میں وفات پائے۔(گلستاں مقدمۂ مترجم)ان کے والد مصلح الدین بادشاہ اتابک سعد زنگی کے ملازم تھے۔ چنانچہ جب مشرف الدین نے شاعری شروع کی تو انہوں نے اسی بادشاہ سعد زنگی کی طرف نسبت کرکے سعدی تخلص اختیار فرمایااور شیخ سعدی شیرازی کے نام سے مشہور ہوئے۔
یوں تو شیخ سعدی کی فارسی تخلیقات شیخ کے فکر وفن کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں لیکن اگر بہ نگاہ ِ تحقیق غور وفکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی عربی شاعری کے بغیر شیخ کی شخصیت اور ان کے فکر وفن کی فہم ادھوری رہ جاتی ہے۔شیخ نے ایک طویل عرصہ عالم عرب میں گذارا،عربوں کے ساتھ ان کی نشست وبرخواست رہی۔ امام ابن الجوزیؔ جیسے اساطین عرب سے انہوں نے اکتساب فیض کیا۔’’گلستاں ‘‘کے مترجم قاضی سجاد لکھتے ہیں’’ابن جوزی سے شیخ کا تلمذ ہی شیخ کی بڑائی کے لیے کافی تھا۔ اگر اور بہت سی بڑائیاں اس میں موجود نہ بھی ہوتیں‘‘ (مقدمہ مترجم گلستان سعدیؔ) عربی زبان وبیان اورادبیات پر انہیں بڑی دسترس حاصل تھی۔ چنانچہ انہوں نے عربی میں بھی طبع آزمائی کی۔فارسی کے شعری چشمے کے ساتھ ان کا عربی چشمۂ فکر وفن بھی یکساں طور سے رواں دواں رہا۔ان کی کتاب گلستاں اور بوستاں کے علاوہ کلیات سعدی ؔمیں بھی ان کی شاعری کے نمونے جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ مولانا حالی لکھتے ہیں’’ کلیات شیخ میں بیس صفحے کے قریب قصیدے اور قطعے بھی شامل ہیں اور ان کے سوا اس کے ملمعات میں عربی اشعار اور مصرعے کثرت سے موجود ہیں۔ گلستاں میں بھی،جیسا کہ اس نے خاتمے میں تصریح کی ہے۔ تقریبا تمام عربی اشعار اسی کے ہیں۔‘‘ (حیات سعدی ص ۲۳۱) قابل ذکر بات یہ ہے کہ زیادہ تر عربی اشعار قطعہ، ایک شعر، دو شعر یا متفرقات کے فارم میں ہیں۔ قصیدے بہت کم ہیں۔مولانا حالی فرماتے ہیں ’’گو اس کا عربی کلام بہت تھوڑا ہے مگر جس قدر ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک مشاق اور ماہر ادیب کا ہونا چاہیے‘‘ (حیات سعدی ص ۲۳۱) حقیقت یہ ہے کہ شیخ سعدی کے کچھ عربی اشعار تو ضرب الامثال کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ جن میں گلستاں میں موجود ان کا مشہور زمانہ نعتیہ قطعہ ؎
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ وآلہ
بھی شامل ہے۔ بوستاں میںعربی کے کل دو شعر ہیں۔ پہلاشعر نعتیہ شعر ہے اور بہت خو ب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں شیخ سعدی فرماتے ہیں ؎
کریمُ السّجایَا جمیلُ الشّیَم
نبی البَرایا شَفیعُ الامَم
یعنی آپ بہترین عادت اور نیک وپاکیزہ خصلت کے مالک ہیں۔ تمام مخلوقات کے نبی اور قوموں کی شفاعت کرنے والے ہیں۔مشہور عربی مورخ عمر فروخ نے اپنی تاریخ میں شیخ سعدی کا ایک قصیدہ ذکر کیا ہے جس کا موضوع تصوف اور غزل ہے اور اس میں کل دس شعر ہیں۔اسی قصیدے میں غزل کے حوالے سے ان کے یہ اشعار ملاحظہ کریں۔ کہتے ہیں ؎
قُل لِمن عَیّر أہلَ الحُب
بِالحُب ولَامَا
لَا عرفتَ الحُب ــ(ہیہات)
ولا ذقتَ الغَرامَا
لا تَلُمنِی فِی غُلام
أودعَ القَلبَ سقَاما
فبِداء الحُبّ کَم مّن
سَید اَضحَی غُلاما
یعنی آپ اس شخص سے کہہ دیجیے جو اہل عشق ومحبت کی ملامت ومذمت کرتا ہے۔ کہ تم نے نہ تو محبت کو پہچانا ہے نہ ہی اس کا مزہ کبھی چکھا ہے۔اس لڑکے کے بارے میں میری مذمت کرو جس نے اپنے دل کومریض عشق بنادیا۔ ارے(تاریخ شاہد ہے) مرض عشق نے کتنے سرداروں کو غلام بنادیاہے۔(تاریخ ادب عربی عمر فروخ ۳ /۶۶۹)
وطن کی محبت اور اس کے شوق میں بیشتر شعراء نے مضمون آفرینی کی ہے۔ شیخ سعدی نے بھی اپنے ایک شعر میں وطن کی محبت کی یوں تصویر کشی کی ہے۔ فرماتے ہیں ؎
فاق طینٌ الاوطانَ عرشَ سلیمان
وأشواکُہ علَی الریحَان
یوسفُ وہو ملکُ مصرَ تمنّی
ان یکونَ الشحّاذ فِی کنعَان
یعنی وطن کی مٹی اپنی عظمت میں عرش سلیمان پر اور اس کے کانٹے گل ریحان پر بھی فائق وبرتر ہیں۔ یوسف علیہ السلام جو کہ مصر کے بادشاہ تھے آرزو کرتے تھے کاش وہ ملک کنعان میں ہوتے خواہ بھیک ہی کیوں نہ مانگ رہے ہوتے۔(گلستاں ص ۱۷)
شیخ سعدی کے فارسی اشعار کی طرح ان کے عربی اشعار بھی حکمت ودانائی سے لبریز ہیں۔ایک شعر میں انھوں نے کیا حکمت بھری باتیں نظم کی ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
اذا یئسَ الانسانُ طالَ لسانُہ
کسِنّور مغلوب یصُول علَی الکلبِ
یعنی انسان جب نا امید ہوجاتا ہے تو اس کی زبان دراز ہوجاتی ہے جیسے دبی ہوئی بلی کتے پر حملہ کردیتی ہے۔(گلستاں ص ۲۵)
ایک اور شعر میں فرماتے ہیں ؎
أقلّ جبالِ الأرض طورٌ وإنہ
لاَعظمُ عند اللہ قدرًا ومنزلًا
یعنی کوہ طور زمین کے چھوٹے پہاڑوں میں سے ہے لیکن وہ قدر ومنزلت میں اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے۔(گلساں ص ۲۷ )
شیخ نے لکھا ہے کہ کسی بزر گ کی تعریف میں لوگ مبالغہ آرائی کررہے تھے تو اس نے سراٹھایا اور کہا کہ من آنم کہ من دانم۔ شیخ نے اسی مناسبت سے یہ شعربھی کہا کہ ؎
کُفیتَ اذی یا من یعُدّ محاسِنی
عَلانیتی ہَذا ولم تدرِ باطِنی
اے میری خوبیوں کو شمار کرنے والے تم جو باتیں بیان کررہے ہو وہ میرا ظاہر ہے لیکن تم میرے باطن کو نہیں جانتے۔ (گلستاں ۸۷)
محبوب کے عشق میں جب انسان غرق ہوتا ہے تو اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ راستہ بھٹک جاتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں ؎
أشاہدُ من اہوَی بغیر وسیلۃٍ
فیلحقنی شانٌ أضل طریقَا
یوجّجُ نارا ثم یطفی برشّۃ
لذاک تَرانی محرِقا وغریقَا
یعنی میں بغیر کسی وسیلے کے اپنے محبوب کا مشاہدہ کرتا ہوں۔اور پھر مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ میں راستہ تک بھٹک جاتا ہوں۔ وہ آگ بھڑکاتا ہے۔ پھر پانی چھڑک کر اس کو بجھاتا ہے۔ اسی وجہ سے تو مجھے جلا ہوا اور ڈوبا ہوا دیکھے گا۔ (گلستاں ص ۸۹)
ایک شعرمیںانار کے درخت پر لگے ہوئے پھولوںکی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ اس شعر کو پڑھ کر چنار کے درختوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جن کے پتے موسم گرما میں اس طرح سرخ ہوجاتے ہیں جیسے کہ سارے درخت آگ سے بھر گئے ہوں۔ فرماتے ہیں ؎
وافانین علیہا جلنارٌ
عُلقت بالشجر الأخضر نارٌ
یعنی وہ شاخیں جن پر گل انار لگے ہوئے ہیں ایسی نظر آتی ہیں جیسے کہ سر سبز درخت پر آک لٹکا دی گئی ہو۔ (گلساں ص ۱۱۱)
ایک شعر میں کیا خوب حکمت کی باتیں کہی ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
بِئس المطاعمُ حین الذّلّ تکسبہَا
القِدر منتصبٌ والقَدر مخفوضُ
یعنی وہ کھانے برے ہیں جنہیں تو ذلت کی حالت میں حاصل کرے کہ ہانڈی تو چڑھی رہے مگر عزت گھٹ جائے۔ (گلستاں۱۳۲)یہاں قدر (بکسر القاف) اور قدر (بفتح القاف) میں پائی جانے والی صنعت تضادوتجنیس کو بھی انہوں نے بخوبی نبھایا ہے۔
ایک اور شعر میں دشمن کی خصلتوں کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے ۔ فرماتے ہیں ؎
اخُو العداوۃ لا یمرُّ بصالِح
لا ویلمزُہ بکذاب اشِرّ
یعنی دشمن کسی نیک آدمی کے پاس سے بھی گذرتا ہے تو اسے جھوٹا اور متکبر ہونے کا عیب لگاتا ہے (گلساں ص ۱۶۲)
محبوب کے فراق کے وقت عاشق کی حالت کے بارے میں کیا خوب شعر کہاہے۔ فرماتے ہیں ؎
اِن لم امتْ فیم الوداع تاسُّفا
لا تحسبُونی فی المَودۃ منصفا
یعنی اگرمیں جدائی کے دن افسوس سے مر نہ جاؤں تو مجھے دوستی کے بارے میں منصف نہ سمجھو (گلستاں ص ۱۹۱)
گلستاں میں شیخ نے کل چھیالیس عربی اشعار ذکر کیے ہیںاور سب کو کسی نہ کسی حکایت یا قصے کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ان تمام عربی اشعار میں بھی ان کی حکیمانہ اور متصوفانہ شخصیت صاف صاف نظر آتی ہے جن میں وہ ایک ناصح اور شاعر حکیم نظر آتے ہیں۔مولانا حالی کہتے ہیں ’’ گلستاں میں بھی جیسا کہ اس نے خاتمے میں تصریح کی ہے تقریبا تمام اشعار اسی کے ہیں‘‘ (حکایات سعدی ص ۲۳۱) یہ سب متفرق اشعار ہیں۔ صرف گلستاں کے خاتمے میں شیخ نے کل چار دعائیہ اشعار ذکر کیے ہیں۔ البتہ ان کا ایک قصیدہ ایسا ہے جس میں کل ۱۲۵/ اشعار ہیں۔ اس قصیدے کے بعض ابیات کو مولانا حالی نے بھی ذکر کیا ہے البتہ عربی کے مشہور مورخ عمر فروخ نے تاریخ ادب عربی میں مکمل قصیدہ ذکر کیا ہے۔ جس میں شیخ نے۶۵۶ھ میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کے سقوط پر خلیفہ مستعصم باللہ اور شہر علم وحکمت بغداد کا مرثیہ قلمبند کیا ہے۔ اس کا مطلع ہے ؎
حبستُ بجفنیّ المدامع لا تجری
فلما طغی الماء استطال علی السکر
یعنی میں نے اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کو بہنے سے روک رکھا تھا مگر جب آنسوؤں میں طغیانی آگئی تو اس بند کو توڑ ڈالا۔
اس قصیدے کے کچھ اور متفرق اشعار اس طرح ہیں ؎
نسیمَ صبا بغدادَ بعد خرابِہا
تمنیتُ لو کانتْ تمرّ علَی قبری
لانّ ہلاک النفسِ عند اولِی النُّہی
أحبّ لہ من عیش منقض الصدرِ
تسائلنی عمّا جرَی یوم حصرِہم
وذلک ممّا لیس یدخُل فی الحصرِ
اُدیرتْ کؤوسُ الموت حتی کأنّما
رؤوسُ الأسارَی ترْححن من السکرِ
نوائبُ دہرٍ لیتنی متُّ قبلہا
ولم أر عدوانَ السفیہ علَی الحبرِ
فأین بنُو العباس مفتخر الورَی
ذوو الخُلُق المرضیّ والغُرر الزہرِ
اتذکُر فی أعلَی المنابر خطبۃً
ومستعصم باللہ لم یکُ فی الذکرِ
عفا اللہ عمّا قد مضَی من جریمۃٍ
ومنّ علینا بالجَمیل من الصبر
خلیلیّ ما احلَی الحیاۃ حقیقۃً
وأطیبہا لولا المَمات علی الاثرِ
(ترجمہ)کاش کہ بغداد کی خرابی کے بعد باد صبا میری قبر سے گزرتی۔ کیونکہ عقل مندوں کے نزدیک مرجانا تنگ دل جینے سے بہتر ہے۔ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ بنی عباس کے قید کے وقت کیا قیامت ٹوٹی۔ لیکن تم جان لو کہ اس قیامت صغریٰ کی حالت کو قید بیان میں نہیں لایا جاسکتا۔ (جانتے ہو اس دن کیا ہوا؟) موت کے جام کواس طرح گردش میں لایا گیاجیسے کہ قیدیوں کے سر نشے میں جنبش کررہے تھے۔علمائے عظام پر جو کہ اصحاب علم ودانش تھے مستنصریہ کی دیواریں زار زار تھیں۔کاش کہ میں زمانے کے ان سخت حادثوں سے قبل ہی موت کا جام نوش کرگیا ہوتا اوراصحاب علم ودانش پر جاہلوں کے ظلم وستم کا گواہ نہ بنتا۔وہ بنی عباس جن پر زمانے کو فخر تھا۔ جو خو ش اخلاق تھے۔جو نورانی پیشانی والے تھے۔ اب کہاں سے آئیں گے۔کیا منبروں پر خطبے کے وقت مستعصم باللہ کا ذکر دوبارہ کیا جائے گا۔اللہ!ہماری خطاؤں کو درگزر کر۔ ہمارے عیب ہم سے چھپاکر ہم پر منت کش ہو۔میرے دووست اگر موت نہ ہوتی تو یہ زندگی کتنی خوب صورت ہوتی!!
شیخ سعدی جس طرح فارسی کے بڑے شاعر تھے اسی طرح وہ عربی کے بھی اچھے اور قادر الکلام شاعر تھے۔ شیخ سعدی کوجس طرح ایران اور بر صغیرمیں شہر ت حاصل ہوئی اسی طرح انہیں عالم عرب میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ چنانچہ نہ صرف گلستاں بوستاں کو عربی میں ترجمہ کیاگیا بلکہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے فکر وفن پر عالم عرب میں کام بھی کیا گیا۔جن عرب علماء نے ان پر خامہ فرسائی کی ، ان کے فکر وفن کو موضوع بحث بنایا ان میںعمر فروخ کے علاوہ، ڈاکٹر غنیمی ہلال، ڈاکٹر یوسف بکار، ڈاکٹر محمد موسی ہنداوی، ڈاکٹر حسین علی محفوظ،محمد فراتی، ڈاکٹر عبد الوہاب عزام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان تمام لوگوں نے ان کے فکر وفن پر قلم اٹھاکر انہیں بہت خوب صورت خراج عقیدت پیش کیا۔
رابطہ :صدرشعبۂ عربی، اردو اسلامک اسٹڈیز۔۔۔باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری جموں وکشمیر