خیر سے تو ماہ رمضان اختتام کو پہنچا اور اس میں سحر خوان ڈولکی بجا کر ہمیں جگاتا ۔ہم تو دست بدعا تھے کہ کوئی ہماری بھی بات سنے، جاگ جائے اور اپنے ملک کشمیر کے حالات کی طرف بھی نظر دوڑائے۔ہمارے زخموں پر بھی پھا ہا رکھے ، کوئی پر اثر دوا نہ بھی رکھے کم از کم بینڈ ایڈ جیسی پٹی ہی باندھ دے۔اس سے ہمیں افاقہ بھلے نہ ہو پر اطمینان تو ہوجاتا کہ سیدھی آنکھ سے بھلے نہ سہی پر گوشوں سے تو ہماری طرف نظر التفات پڑ ہی رہی ہے۔ ایسے میں جانے اقوام متحدہ کو کس سحر خوان نے جگایا اور اس کے بشری حقوق سرشتے نے رپورٹ جاری کردی کہ ملک کشمیر میں حالات ٹھیک نہیں ۔ یہاں مار کاٹ ہی جاری ہے ۔ اور پھر اس پر طرہ یہ کہ کسی کو مارو کاٹو کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ادھر کا فوجی شیرا ہے باقی ایرہ غیرہ ہے بلکہ نتھو خیرہ ہے۔ میجر صاحب تو افسپاکی توپ کے سبب ہتھیار بند ہے اسلئے وہ کسی کو بھی پیٹ سکتا ہے، زخمی کرسکتا ہے ، بلکہ ہلاک بھی کرسکتا ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوئی عدالت نہیں لے جا سکتا ،کوئی سزا نہیں دے سکتا ۔اور اگر کسی نے سزا سنائی بھی تو وہ پٹھانی سوٹ کا بہانہ بناکر چھوٹ سکتا ہے۔مژھل والے خان سوٹ کے سبب چھوٹے ، پتھری بل والوں پر کوئی کیس بن ہی نہیں۔باقی جگہوں پر تحقیقات جاری ہے جس پر خود وردی پوش بھاری ہے۔ مانا کہ بھارت ورش میں شیروں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے لیکن فوجی تو ایسا شیرا ہے کہ اس کی حفاظت میں سب میدان میں اتر آتے ہیں۔پولیس والے اسکے خلاف ایف آئی آر درج کریں تو عدالت عظمیٰ روک لگادیتی ہے کہ اسے نہ چھیڑو یہ تو ہمارا پیارا سا شیر خوار بچہ ہے اسلئے طفلی کے سبب کسی کی ناک توڑی ، آنکھ پھوڑی ،گردن کاٹی اس پر کوئی کیس نہیں بنتا۔جب سبھی سرکاری غیر سرکاری سرشتے اسے بچانے میں لگے ہوں پھر کوئی اس سے پوچھ تاچھ کاجگرا نہیں رکھتا۔انگلی اٹھانے والے کسی سے ڈریں نہ ڈریں پر صحافت کے مچھلی بازار کے شور شرابے سے ضرور خائف ہیں ۔ پر بھارت سرکار سے تو پوچھنے والے کئی ہیں جو ابھی تک سوئے تھے پر اب گہری نیند سے جاگے تو ملک کشمیر کے معصومین پر نظر پڑی اور ضمیر جھنجوڑا کہ بھائی لوگو اہل کشمیر تو پریشان حال ہیں ۔اتنا ہی نہیں یہ جو طاقتور ہمسایے ایک دسرے کو نیچا دکھاتے ہیں تو اس میں بھی اہل کشمیر ہی کٹتے ہیں۔رات گئے بم برسے تو بیچاروں کو سرحدوں سے ننگے پیر اور اجڑے سر بھاگنا پڑتا ہے پھر گھر کہاں ، کھیت کہاں ، مویشی کہاں ، بچے کہاں، سچے کہاں اور جھوٹے۔۔۔۔نہیں جھوٹے تو پھر دیر بعد آتے ہیں، تسلیاں دینے کہ گھبرائو مت آپ کو مارا ہم ان کے چار کیا دس ماریں گے ۔شرط اتنی سی ہے کہ ہم اور ہماری کرسیاں محفوظ رہنی چاہیں۔پھر جو اقوام متحدہ کے بشری حقوق ادارے نے سوال اٹھائے تو ادھر کے لوگ تلملا اٹھے کہ آپ نے تو یک طرفہ رپورٹ جاری کردی۔یہ تو ہمارا اٹوٹ انگ ہے بھلے ہم اپنے انگ کو کاٹ دیں ، زخمی کردیں آپ پوچھنے والے کون ہو؟
یقین نہ آئے تو ملک کشمیر کے سیاسی بازی گروں سے پوچھو جو کبھی کبھی مذمت والا بیان داغ دیتے ہیں پر اصل میں ہماری ہی بات پر یقین کامل رکھے ہیں ۔ہمارے ہی فوجی شیرا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ شیرا فوجی اگر زیادہ شدت سے جواب دے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ؎
چونکہ مجرم نہیں پکڑا جاتا
چلئے مجرم کی مذمت ہی سہی
ٹیڑھے میڑھے ہی بیان داغو
کچھ نہیں تو سیاست ہی سہی
اپنے ملک کشمیر میں ہل والی کانفرنس اور قلم والی پارٹی کے بیچ گھمسان کی جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ہل والوں کو شکایت ہے کہ اہل کشمیر ہماری کھونٹی سے بندھے تھے او ر بار بار الہ کرے گا وانگن کرے گا کہتے اور ہمارے ہی اشارے پر دم ہلاتے ۔پر قلم والوں نے نہ جانے کیا تعویذ لکھ ڈالا کہ کھونٹی توڑ کر بھاگ نکلے ۔اس وقت سے کوئی گپکار کی سڑکوں پر اونچا رہے گا ہل والا جھنڈا نعرہ لگانے کوئی نہیں آتا۔وہ بندھے تھے تو ہماری کرسی، میز ،گاڑی، عیش سب قائم تھا پر قلم والوں نے ڈاکہ ڈالا ۔ حالانکہ قلم والے بھی اہل کشمیر کو اسی طرح ٹھگ رہے ہیں جیسے ہم نے ٹھگا تھا ۔ہم نے اندرونی خود مختاری کے نام پر بہلایا اور وہ سیلف رول کے نام پرپھسلاتے رہے ۔جب کرسی ملی تو سب بھول گئے اور بھارت ورش کے آئین کے اندر اندر رکنے کا فتویٰ جاری کردیا ۔اور یہ بھی چیتائونی دی کہ جب اس دائرے سے پیر نکالنے کی کوشش کرو گے تو پیلٹ گولیوں کی بارش ہوگی ۔ہل والے ناراض ہیں کہ ہم نے ۲۰۱۰ میں ایک سو بیس مارے تھے انہوں نے ۲۰۱۶ میں حساب برابر کردیا ،بلکہ اس کے اوپر بونس کے طور سینکڑوں کی بینائی ہڑپ لی۔ان کی یہی تو شکایت ہے کہ ۲۰۰۲ میں گجرات فسادات کے دوران ہم کنول برداروں سے چمٹے رہے اور ادھر ساڑھے تین سال سے یہ بھی کنول کی بو سونگھ رہے ہیں،یعنی دیکھا جائے تو فرق کچھ نہیں،ہل والے اور قلم والے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ایک ہی گدھ کے دو پنکھ ہیں کہ اڑے تو اپنی جگہ پہنچے اور نوچ نوچ کر کھا لیا ،یہ دیکھے بغیر کہ یہ تو اپنے ہی لوگ ہیں ۔ہو نہ ہو اپنے ہی لوگوں کا خون چوسنے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔اپنے ہی بھائی بندھوں کا گوشت راس آتا ہے ؎
ساکنان شہر اب ہوشیار ہونا چاہئے
ممبر اور ووٹر کا کچھ معیار ہونا چاہئے
سنا ہے ہل والے اپنی فوج کو چاک و چوبند رکھ رہے ہیں کہ بھائی لوگو کسی بھی سمے الیکشن جنگ کا اعلان ہو سکتا ہے ۔تیر و تفنگ تیار رکھو کہ جیسے ہی اعلان ہو ٹوٹ پڑو کہ کسی نہ کسی صورت یہ کرسی واپس اینٹھ لینی ہے ،چھین لینی ہے ۔مانا کہ اس میں انسانی خون کی بو آرہی ہے اور وہ بھی اپنے ملک کشمیر والوں کی کہ جنہوں نے برسوں سے سر پر اٹھایا ہے اور ہم نے جب چاہا ان کی چھاتی پر مونگ دلا۔وہ اف تک نہ کر پائے بلکہ سسکیاں لیتے برداشت کرتے رہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے انہیں صبر کا سبق یاد کرایا تھا۔ہل والے اپنی پارٹی کی سیڑھیاں سدھارنے میں لگے ہیں ۔ٹویٹر ٹائگر کو نائب سالار بنا ڈالا اور سیاسی گورکھ دھندے میں شامل ہونے کے لئے ادھر ادھر کمانڈر بھرتی کر رہے ہیں ۔خود ہل والے قائد ثانی بھی زور و شور سے سیاسی بنگولے پھوڑ رہے ہیں ۔ایک تازہ اور زور دار بنگولا یہ پھوڑا کہ حریت والوں کو بھی نصیحت دے ڈالی کہ بھائی لوگو ہوشیار خبر دار دلی دربار کے پاس دینے کو کچھ نہیں ۔بیچاری ننگی ہے نہائے کیا اور نچوڑے کیا۔ہم تو ان کے پہلے سے ڈسے ہوئے ہیں اور ایسے ڈسے کہ پانی نہ مانگ پائے بلکہ بڑی مشکل سے کرسی کو گلے لگا کر جان کی امان پائی ؎
آیا جو حریت کا کبھی دل میںوہم بھی
سمجھا دیا کہ جوش جنوں کا وبال ہے
اب تک اسی طریق پہ ہیں بندگان خاص
گو صحبت عوام میں کچھ قیل و قال ہے
ہم کبھی کبھی سوچتے تھے کہ بھارت ورش میں کب سے ہم دو ہمارے دو کا نعرہ چل رہا ہے پھر یہ آبادی سوا سو کروڑ سے آگے کیسی نکلی ۔پھر ناگپوری سنگھ پریوار کے دم چھلوں نے یہ طعنہ دیا کہ ٹوپی والوں کا نعرہ تو ہم پانچ ہمارے پچیس ہے۔پر ان کی آ بادی تو ترشول برداروں کے ہاتھوں روز مار کھاتی ہے۔کبھی گائو ماتا کے نام پر، کبھی ووٹ کے نام پر اور کبھی نوٹ کے نام ،پھر یہ سوا سو کروڑ کہاں سے آ دھمکے ۔ہو نہ ہو ویدک زمانے سے کوئی ٹیکنیک سامنے آئی کہ بچے انٹر نٹ سے ڈائون لوڈ ہوتے ہوں ۔ یا مہابھارت کے سمے میں کوئی پھولوں کے گملوں میں بچے اگانے کی ترکیب کا پتہ چلا ہو۔ہم تو اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ بھلا ہو بھیماکوریگائوں فسادات میں ملزم سمبھا جی بڑے کا جس نے ہماری الجھن دور کردی۔یہ اطلاع عام کردی کہ اس کے کھیت میں آم کے پیڑ ہیں اور جو بے اولاد جوڑے وہ آم کھاتے ہیں ان کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے ۔اتنا ہی نہیں اگر کوئی نر بچہ چاہے اسے بھی آم کھانے کے ساتھ کچھ اور بھی کرنا ہے تو اس کی ایچھا بھی پوری ہوگی۔ باقاعدہ تفصیل دیتے ہوئے سمبھا جی نے پروچن کیا کہ میرے کھیت سے آم کھانے سے اب تک ایک سو اسی میں سے ایک سو پچاس بے اولاد جوڑوںکے ہاں بچے پیداہوئے۔سمبھا جی کے کیا کہنے ہو نہ ہو بعض یورپی اور افریقی ممالک اسی کے کھیت سے آم در آمد کردیں۔کچھ یورپی ممالک میں آبادی کم ہے ۔کچھ افریقی ممالک میں جنگوں کے دوران قتل و غارت کے سبب آبادی بہت کم ہوگئی ۔سمبھا جی کے آم کھائیں گے تو مزید بچے پیدا ہوں گے ۔ان کی دیرینہ اور پیچیدہ مشکل حل ہوگی ۔سمبھا جی کے آموں سے زر مبادلہ میں اضافہ ہوگا ۔ مودی مہاراج کے ساتھ ساتھ سمبھا جی غیر ممالک میں بھارت کی شبیہ درست کردے گا۔پھر بھلے نرو مودی جیسے لوگ ہزار ہا کروڑ کا گھپلا کردیں بھارت کی معیشت پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔سمبھا جی جیسے لوگوں کی مودی مہاراج کو بڑی ضرورت ہے کہ ایک طرف مودی مہاراج بھلے ہی بھارت کی صحت و صفائی ٹھیک نہ کر پائے لیکن اپنی صحت کا ویڈیو عام کردیتے ہیں کہ چھپن انچ کی چھاتی دیکھ لو، بڑے بڑے ڈولے دیکھ لو۔اگر سن ۱۹ کا الیکشن ووٹوں سے نہ جیتا دھینگا مشتی سے ضرور جیتوں گا۔ہے کسی کی ہمت کہ میدان میں اترے؟؟؟
ناچ تگنی کا انہیں اب میں نچائوں گا حضور
دیکھئے کس کس طرح ان کو ستائوں گا حضور
(رابط[email protected]/9419009169 )