اتوار۱۱/مارچ ۲۰۱۸ء کو بعد دوپہر ’’شیر کشمیر یونیورسٹی برائے زرعی سائنس (کشمیر) شالیمار سرینگر کے منعقد کردہ’’ دو روزہ کسان میلے ‘‘میں شریک سفرکے ساتھ جانے کا موقع ملا،میرے لئے ایسے میلے میں جانے کایہ پہلا تجربہ تھا ۔ زبرون کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع جھیل ڈل کے فرحت بخش ہمسائیگی میں یہ میلہ اس قدر خوبصورت اور دلکش منظر پیش کر رہا تھا کہ میں نے جانے سے پہلے جو خواب آنکھوں میں سجائے تھے ، ان کی تعبیر توقعات سے کئی زیادہ دل چھو لینے والی ثابت ہوئی۔میں اس بابت آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ تعلیمی وتدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ اس نوعیت کے میلے بھی منعقد کر رہے ہیں ۔چند روز پہلے میں نے اخبار میں یہ خبر بھی پڑھی تھی کہ ’’ شیر کشمیر جامعہ برائے زرعی سائنس (ک) زرعی معلومات کو وسعت دینے کے لئے ابلاغیات کی اور بھی قدم بڑھا رہا ہے اور اس سلسلے میںہفتہ روزہ ’’زراعت ٹائمز‘‘ شائع کرنے جا رہا ہے۔
اس ’’دو روزہ کسان میلے‘‘ میںخوبصورتی سے سجائے گئے مختلف اسٹال لگے ہوئے تھے، جہاں پر سینکڑوں کسانوں اور دیگر شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری رہا،ان میںیونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات سے منسلک زرعی ماہرین کسانوں کو دنیا کی بہترین زرعی ٹیکنالوجی، تحقیقا ت،ادویات، بیجوں،پودوں،سبزیوں وغیرہ اورکاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی ،زرعی مشینری اور زراعت میں جدید رجحانات کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہے تھے ، خوشی ہوئی ایک اسٹال پر شعبہ’’ فلاحت ِخاک ‘‘نے میر ے موبائل نمبر کا اندارج کیا تاکہ مجھے موسم سے متعلق بروقت زرعی معلومات بذریعہ ایس ایم ایس ملا کریں۔البتہ اس میلے کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں چند استفسارات کلبلانے لگے جو میں آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
زرعی ترقی کا درامدار زرعی علوم و فنون، معیاری تعلیم و تربیت، مسلسل تحقیق کے ساتھ ساتھ فعال توسیعی نظام پرہے۔ اگر آپ کے پاس یہ سب وسائل موجود ہیں اور اس کے باوجود آپ کی جامعہ اگر کسانوں کو یہ علوم و فنون اور جدیدٹیکنالوجی کے یہ وسائل نہ سمجھا پائے تویہ دکھاوے (showup (کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ کسان کی زبان سمجھیں تاکہ وہ آپ کی زبان سمجھ پائے ۔ ان علوم کا وزن تب تک بھر پیٹ ڈھکار کے سوا کچھ بھی نہیں،جب تک نہ ان علوم کو علاقائی زبانوں خصوصاً اردو زبان میں منتقل کر کے نچلی ترین سطح پر معلومات کی ترسیل کی راہ ہموار کی جائے ۔ اگر ہم غور کریں تو ایک طرف ہماری وجہ سے روزانہ سینکڑوں جدید الفاظ و اصطلاحات انگریزی و دیگر ترقی یافتہ زبانوں کو مزید زرخیز بنا رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ان ترقی پذیر معاشروں کی دیہی ثقافت، مقامی بولیوں میں زرعی معیشت سے متعلق پیداواری لوازمات و طریق کار، اشیاء اور آلات مقامی وسائل و استعمالات، زرعی اراضی کی تفصیلات ، امراض و ادویات، افزائش حیوانات، فصلوں،پھولوں، پھلوں، سبزیوں، پیشوں اور مہارتوں وغیرہ کے لیے صدیوں سے مروجہ الفاظ و اصطلاحات اور محاورات و ضرب الامثال سے روز بروز ہماری ثقافت اور زبان کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ تیزی سے متروک ہوتے الفاظ و اصطلاحات کے باعث مقامی ثقافت روبہ زوال اور دیہی ذہانت پر مبنی ثقافتی و تاریخی ورثہ شدید خطرات کی زد میں ہے۔ایسے حالات میں زرعی تعلیم و تحقیق اور توسیع سے وابستہ جامعات ،دیگر اداروں اورزرعی تعلیم سے وابستہ ماہرین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علاقائی ثقافتی و لسانی ڈھانچہ کو مستحکم بنائیں۔
کسان میلے کے جس کسی بھی اسٹال سے بھی میں گزرا، یہاں تک کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات سے بھی تقریباً ۹.۹۹فیصد تختیاں انگریزی زبان(رومن رسم الخط ) میں آویزاں تھیں ۔کشمیر میں اردو زبان و ادب کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔ اگرچہ اردو ریاست کے کسی بھی خطے کی مادری زبان نہیں لیکن اس کا دائرہ اثر یہاں کی مادری زبانوں سے کئی زیادہ وسیع ہے۔ اس کی اہمیت کی وجہ خود اس زبان کی لسانی کششں ، داخلی قوت اور سحر کاری تو ہے ہی،لیکن بنیادی وجہ وہ تہذیبی و تمدنی اہمیت ہے جو ریاست کے جغرافیائی نقشہ کے حوالے سے اسے حاصل ہے ۔ مہاراجہ گلاب سنگھ (1846-56) اور مہاراجہ رنبیر سنگھ (1856-75)کے زمانوں سے ہی اردو جموں و کشمیر ریاست میں رابطے کی زبان رہی اور اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی ،1940ء میںمہاراجہ ہری سنگھ کے دورحکومت میں ریاست میں اردو کو ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا،یہ ریاست ہندوستان کی واحد ریاست ہے، جہاں 1950ء میں پہلی آئین ساز اسمبلی نے دفعہ145کے تحت اردو کو سرکاری زبان قرار دیا۔ یہ زبان ریاست کے تینوں خطوں جموں ، کشمیر اور لداخ میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ جموں و کشمیر میں رابطے کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ زبان پورے برصغیر ہندو پاک میں ترسیل کی واحد زبان ہے۔ یہی وجہ ہے ہندوستانی فلم انڈسٹری نے بھی اسی زبان کے سہارے تمام گنگا جمنی تہذیب تک اپنے فن کی ترسیل ممکن بنا رکھی ہے۔یہ اردو کا لسانی سحر ہی ہے کہ جناب سمپورن سنگھ کالرا گلزارؔکہہ اُٹھے ؎
وہ یار ہے جو خوشبو کی طرح
ـوہ جس کی زبان اردو کی طرح
تعویز بنا کے پہنو اُسے
آیت کی طرح مل جائے کہیں
آپ کے گوش گزار یہ کرتا چلوں کہ جموں و کشمیر خصوصاً کشمیر کے زرعی شعبے سے وابستہ لوگ انگریزی کے بجائے اردو بہتر طریقے سے پڑھ ،لکھ اور سمجھ سکتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والے تمام زرعی پروگرام اردو اوردیگر علاقائی زبانوں میں ہی نشر ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ جب بھی آپ مختلف سطح کے عوامی پروگرام منعقد کرتے ہیں تو اُن میں بھی یقیناًاردو میں ہی لوگوں سے ترسیل ہوتی ہوگی۔اگر اس طرح کے پروگراموں میں اردو سے ترسیل جائز ہے تو پھر تختیاں اردو میں آویزاں کرنا کیوں جائز نہیں؟میری گذارش ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں عوامی زبان اختیار کرنی ہے اور زرعی شعبہ تب تک گونگا ہے جب تک نہ وہ عوامی زبان میں ترسیل کو ممکن بنا سکے۔اگر کشمیر میں زرعی یونیورسٹی کسانوں کو زرعی تعلیم سے روشناس کرانا چاہتی ہے، توپہلی فرست میں اسے زبان کی سطح کو صحیح کرنا ہوگا تاکہ گفتگو عوامی زبان میں ہو ۔اس کے لئے لازمی ہے کہ یونیورسٹی میں دار الترجمہ کی بنیاد ڈالی جائے یا پھر کسی قومی یا بین الاقوامی اردوادارے سے علمی و تکنیکی تعاون و اشتراک کیا جائے تاکہ مختلف زرعی علوم و فنون اور تحقیقی نگارشات کو عوام و خواص تک پہنچایا جاسکے۔زراعت کے مختلف شعبوں میں کثرت سے مستعمل الفاظ و اصطلاحات کی تعلیم، تفہیم اور توسیع کو آسان کیا جائے ۔زرعی معلومات و پیغامات عوام تک عوامی زبان میں پہنچائے جائیں ، قابل فہم اور دلچسپ انداز میں لوگوں تک پہنچانے کے لیے کتب و رسائل ، عملی رہنما کتابچوں، ریڈیو، ٹی وی اور ویب گاہ کے لیے تربیتی و دستاویزی پروگراموں کی تیاری و نشر و اشاعت کو ممکن بنایا جائے۔شیر کشمیر یونیورسٹی برائے زرعی سائنس (ک) کی ویب گاہ انگریزی زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ اردو میں لازماً ہونی چاہئے تاکہ عام لوگوں کی رسائی ویب گاہ تک ممکن ہوسکے۔آپ کی یونیورسٹی کو فاصلاتی تعلیم کے پروگرام ترجیحی بنیادوں پراردو میڈیم میں چھوٹے چھوٹے پیشہ ورانہی تیکنکی کورسز شروع کرنی چاہئے تاکہ نئی نسل کو زراعت کی اہمیت ، اُس سے متعلق جان کاری تعلیمی اور تجرباتی سطح پر حاصل ہو ،نیز ایسے الفاظ ترک کریں جسے اردو زبان برباد ہو رہی ہے یا اُن الفاظ کو اپنی زبان کے رسم الخط میں لکھیں،جیسے ــ’’فلاحت ِخاک‘‘ کے اسٹال پر مجھے ایک کتابچہ دیا گیا،جس پر سُرخی اس طرح جمی تھی ’’گرامین کرشی موسم سیوا‘‘کوسین میں دئے گئے یہ سب لفظ سنسکرت سے لئے گئے ہیں ،اس پر ہم کسی بھی صورت میں معترض نہیں ، التجایہ ہے کہ یا آپ انہیں دیوناگری میں لکھیں یا پھر نستعلیق میں اردو الفاظ ہی مستعمل ہونے چاہئے،تاکہ زبان کی سطح صحیح و سالم رہے۔اگر اردو کو آپ فائدہ بھی نہیں پہنچانا چاہتے تو کم از کم اسے برباد بھی نہ کریں ،کیونکہ آپ کی پہنچ آبادی کے ایک بڑے حصے تک ہے اور ایسی ہی زبان لازماً ایک بڑے حصے تک خود بہ خود پہنچے گی۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ میلہ بہت ہی بڑا تھا ،اس لئے انتظامات میں بھی کافی خامیاں واضح نظر آرہی تھیں ۔ گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ دستیاب نہیں تھی ۔ اس میلے میںجونجی اسٹال یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے باہرسڑک پر لگے ہوئے تھے اُن پر قیمتیں مناسب نہیں تھیں ،جو چاہتا تھا جس طرح فروخت کریں کوئی پوچھ گچھ نہیں تھی ۔ یونیورسٹی کے اندر مچھلیوں کے کئی اسٹال لگے ہوئے تھے لیکن مچھلیاں ایک جگہ ۴۰۰ ۱وردوسری جگہ ۵۰۰ کے حساب سے فروخت ہو رہی تھیں۔وجہ یہ بتائی جا رہی تھی کہ مچھلیاں چھوٹی بڑی ہیں جو واضح نہیں ہو پا رہا تھا۔ہمیں انگور کے درخت خریدنے تھے ،سو روپیہ کی رسید کے لئے ایک نہ ختم ہونی والی قطار میں رہنا تھا ،جو ہمارے لئے ممکن نہیں تھا۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ یونیورسٹی کی ویب گاہ پر پہلے ہی آن لائن رقم لینے کی سہولیات دستیاب ہوتی یا ہر اسٹال سے وہیں پر رسید کے عوض رقم لی جاتی،یہاں تک کہ وہیں پر بذریعہ کارڈ ،زرِ مبادلہ مشین کے تحت رقم حاصل کی جاتی،تاکہ اِدھر اُدھر کی پر یشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور وقت ضائع نہ ہوجاتا۔ وقت آج کے دور کی سب سے بڑی اور قیمتی چیز ہے۔
باغبانی کے شوق کے بہ سبب اس میلے میں جانے کے لئے مجھے میرے شریک سفر نے مجبور کیا ۔باڑی یا خانہ باغ(باورچی خانہ سے منسلک سبزی واری)میں میرے شریک سفر کو زبردست دلچسپی ہے ،جس کے سبب ہم شہر میں رہنے کے باوجود ،ایک بہت ہی قلیل رقبے سے بہت ساری سبزی حاصل کر تے آ رہے ہیں۔اس سلسلے میں یہ بتاتا چلوں کہ شہر میں اکثر لوگوں کو زمین دستیاب ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اس سے استفادہ نہیں کر پا رہے ہیں اور اکثر خواتین کام میں مصروف نہ رہنے کی بدولت مختلف النوع امراض میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔دیہی علاقوںمیں اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو زراعت میں سب سے اہم کردار خواتین ادا کر رہی ہیں۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کل بین الا قوامی سطح پر’’ خواتین زرعی کسان میلے‘‘بھی الگ سے منعقد کئے جا رہے ہیں،آپ کو اس طرف بھی قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کیلئے زراعت کے حوالے سے نفع بخش کاروبار کی معلومات ، باڑی یا خانہ باغ کی ایسی تدابیر کہ لوگوں خصوصاً خواتین کو سمجھائے کہ کیسے کم زمین، کم وقت اور کم خرچے میںروزمرہ سبزیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔شہری خواتین کو اس بارے میں واقفیت(orientation) بہم پہنچائی جائے تاکہ وہ اس طرف ذہنی طور تیار ہو جائیں اور گھریلو سبزیاں کاشت کر کے ایک طرح کی خود کفالت حاصل کریں اوراگر خواتین زرعی شعبے میں بڑے پیمانے پر کاروبار شروع کرنے کی خواہش مند ہو تو انہیں اس سلسلے میں بنک سے زرعی قرضوں کی حصولیابی کیسے ممکن ہو پائے اور زراعت سے وابستہ دیگر منافع بخش کاروبار سے متعلق بھی معلومات فراہم کی جائے ع
غالبؔ بُرا نہ مان جوواعظ بُرا کہے!
+919419009667