ہمالہ کے دامن میں ابلتے ہوئے چشموں،آبشاروں،لالہ زاروں،سر سبز وشاداب کھیتوں اورزعفران زاروںکے ہوشربا و پر کشش قدرتی منظر سے بھر پور خطہ کشمیر جسے بقول علامہ اقبالؔ اہل نظر نے ایران صغیر سے تعبیر کیا ہے اور جس کی سرحدیںہندوستان،پاکستان،روس،افغانستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں،عہد قدیم سے ہی علم وادب کی گہوارہ رہی ہے۔یہ سرزمین ِفطری استعداد کے اعتبار سے نہایت ہی زرخیز ہے۔اس سرزمین نے ایسے ادباء‘شعراء ،علماء وفضلاء کو جنم دیا جنہوں نے تعلیم، سائنس ،سیاست،سماجیت ،اقتصادیت اور شعر وادب جیسے علو م کی تاریخ میں اَن گنت نقوش چھوڑے ہیں۔ اس فہرست میں جناب شہزادہ بسمل ؔکا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ریاست کے معاصر ادبی منظر نامے پر شہزادہ بسملؔ بحیثیت کالم نویس مشہور ومعروف ہیں۔شہزادہ بسمل ؔکا اصلی نام غلام قادر خان ہے۔ان کا تعلق سرینگر کے بر برشاہ علاقے سے ہے۔میٹرک پاس کرنے کے بعدسرکاری نوکری کا پیشہ اختیا ر کیا۔سرکار ی عہدوںپر فائزہ رہ کر جوائنٹ سیکرٹری بوڑ آف سکول ایجوکیشن کی حیثیت سے سکبدوش ہوئے۔ جناب شہزادہ بسمل ؔنے اپنی کالم نگاری کا آغاز 25سال کی عمرمیں کیا جب ان کا پہلا کالم ’’آں حضرت ﷺسے پہلے عرب و عجم کے حالات‘‘عنوان کے تحت ’’نیا سنسار ‘‘کشمیر عید نمبر کے مارچ 1961کے شمارے میں شائع ہوا۔اس کے بعد ان کے کالم برصغیرکے مختلف جرائد و اخبارات میں چھپنے لگے جن میں اخبار مسلم، آفتاب ، سب رس،کشمیر عظمیٰ، چٹان ، شاعر،اُڑان ،الصفا،احتساب،الحیات اورانشاء وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آپ ریاست کے معتبر اور معروف کالم نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ادبی ،سیاسی اور سماجی منظر نامے پر اپنے گہرے مشاہدے اور منفرد اسلوب بیان کے بل بوتے پر توانا اور زندگی آمیز تخلیقات پیش کرنے والوں میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔شہزادہ بسمل ؔ اپنے کالموں میں زندگی کی تلخ حقائق ،قدروں کی شکست و ریخت،انسان سے انسانیت کا رشتہ،سیاسی،سماجی اور مذہبی کشمکش کو بھر پور انداز میں پیش کرتے ہیں۔نیز اپنے کالموں کے عنوا ن عام زندگی سے چنتے ہیں اور آئے دن کے واقعات کو تخلیقی انداز میں سے بیان کرتے ہیں۔اس وقت تک شہزادہ بسملؔ ؔکی تین کتابیں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ان کے عنوانات ’’آں حضرت ﷺہندو صحائف میں ذکر پیغمبر آخرالزماںﷺ‘‘،’’جھیل ڈل کی فریاد‘‘،اور ’’رقص بسمل‘‘ (افسانوی مجموعہ) ہیں۔
شہزادہ بسملؔ ؔنے سماج کا مطالعہ ایک نبض شناس کی نظر سے کیا ہے۔انھوں نے اپنے کالموں کے لئے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جسکی روایت بہت کم رہی ہے۔ ان موضوعات میں متنوع اور انفراد بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔چونکہ ان کے پاس زندگی کے عملی تحربات اور مشاہدات کی کوئی کمی نہیں ہے، اس لئے ان کی روزانہ کالم نویسی میں بھی ایک خاص توانائی نظر آتی ہے ۔ان کے قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی خاص بات نہیں بلکہ اسی کے تجربے کی بات کررہے ہیں۔شہزادہ بسملؔ ،انسان کو اس کی ساری خوبیوں اور خرابیوں کے ساتھ برتتے اور دیکھتے ہیں۔ان کے پاس نہ تو رنگین شیشوں کی عینک ہے اور نہ بلندی کا مصنوعی زینہ ۔ آپ آدمیوں میں گھل مل کر ان کے دکھ درد کاادراک کرتے ہیں اور اس کو طنزو مزاح کی چاشنی میں ڈبو کر اخبار کے صفحے پر پھیلادیتے ہیں۔سماج میں اخلاقی قدروں کے زوال کی کس طرح شہزادہ بسملؔ ترجمانی کرتے ہیں۔کالم کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’سستے میں کیلشم حاصل ہوتا مگر براہ کرم چھلکا سڑک پر مت پھینکئے ،جو آپ اکثرغیر دانستہ مگر کبھی دانستہ طور پر کرتے ہیں۔بس میں،میٹاڈار میں ہوں تو کھڑکی سے باہر پھینک دیتے ہیں اور عام طور پر بس میں ہی سیٹ کے نیچے ڈال دیتے ہیں۔کیا یہ اچھی بات ہے؟۔۔۔۔اپنی عزت نفس کا خیال رکھے،اپنے کے ساتھ اوروں کی عزت کرنا سیکھے ۔۔۔۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا ۔‘‘(کالم۔۔۔چھوٹی چھوٹی باتیں ۔۔)
شہزادہ بسمل ؔکے کا لموں میں ایک خاص بات جو قاری کی توجہ اپنی جناب مبذول کراتی ہے وہ ان کی المیاتیtragedy کیفیات ہیں۔ممکن ہے کہ یہ کیفیت سیاست کی اُس کیفیت کی دین ہو جو موسم کی طرح کبھی گرم اور کبھی سرد ہوتی ہے۔کبھی برف اور کبھی باراں ۔ خوشگوار موسم کا گمان ہونے لگتا ہے تو بجلیاں گرتی ہیں۔ غرض کشمیر عرصہ دراز سے مختلف حالات واقعات کو اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔بقول شہزادہ بسملؔ’’وہ آج بھی ظلم و بربریت کی وہ داستان خونچکاں سنانے کے لئے بے تاب ہیں۔۔۔میں لکھ نہیں پا رہا ہوں۔۔۔کیونکہ ہمارے کئی کم سن اور معصوم بچیاں اور بچے ہماے جگر کے ٹکڑے دست تظلم کی وجہ سے اپنی بصارت کھوچکے ہیں۔جنگلی اور وحشی درندوں پر استعمال کیا جانے والا اسلحہ بے گناہوں بچوں اور بچیوں پر استعمال کیا گیا۔۔۔جب میرا اور مجموعی طور پر میرے وطن کا مستقبل ہی بے بصارت اور اندھا ہوگیا تو میں کیا لکھوں ؟کیسے لکھوں؟لکھ ہی نہیں پارہا ہوں۔۔۔(کالم۔۔۔میں کیا لکھوں۔۔)۔ان میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بات سے بات پیدا کرکے قاری کومسرت وانبساط فراہم کرنے کے علاوہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ شہزادہ بسملؔ کی نظریں ان کرداروں وموضوعات پر ٹکتی ہیں جو مظلوم ،سیدھے سادے،دبے کچلے ،غربت زدہ، خستہ حال اور زمانے کے ستائے ہوئے ہیں۔بسملؔ ان ہی لوگوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں اور اپنے طنز کے مخصوص پیرائے میں پوری انسانیت کو اچھائی کا درس دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے کالموں میںموجودہ زندگی اور معاشرے کے مختلف اور متضاد پہلوئوں میں حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُن کردارور کا پوسٹ مارٹم کیا ہے جو مکرو فریب کا لبادہ اُوڑھ کر اپنی مختلف صورتوں میں نمایاں ہوتے ہیںاور اپنے معاشرے کے عام اور سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہے۔مایوسی کی اس فضا سے آج تقریبا ہر فرد دو چار ہے، جو بہت سنجیدگی اور ہوش مندی کا تقاضا کرتی ہے ۔وہ زندگی کے اس بہروپئے نظام پر تشوش کا اظہار کرتے ہیں۔بقول شہزادہ بسملؔ’’ایسے کتنے ماڈرن ٹھگ آج بھی آپ کو جگہ جگہ پر ملیں گے۔پرانے وقتوں میں ٹھگی اگر چہ پرانے طریقوں سے روبہ عمل لائی جاتی تھی مگرآج کل ٹھگی کے انداز بڑے دلفریب ہوگئے ہیں۔کشمیری لوگ سیدھے سادھے او ر نرم دل ہونے کی وجہ سے عام طور پر ہر جگہ، ریاست میں، اورریاست سے باہر، ٹھگ لئے جاتے ہیں۔ (کالم۔۔۔انداز نرالے یاروں کے) ۔
شہزادہ بسمل ؔکے چند کالم ایسے ہیں جن میں زندگی کی معنویت کو اس طرح پیش کیا گیا ہیں کہ قاری کے کلیجے پر چوٹ پڑتی ہے۔ بسمل صاحبؔ لگ بھگ ایک ہزار کے قریب کالم لکھ چکے ہیںنیرآج بھی ان کا یہ سفراپنی آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔’’نور کی بے قدری‘‘، ’’لالہ صحرا‘‘،’’گولر کا پھول‘‘، ’’سایو نارا‘‘ ، ’’السلام علیکم‘‘ ،’’نندادیپ‘‘، ’’بحری قذاق‘‘ ،’’گلاب آنگن میں‘‘، ’’بجھ گئے جلے چراغ‘‘، ’’درد کی سوغات‘‘ اور ’’دودھ کا بٹوارہ ‘‘ جیسے مشہور کالم زندگی کی تلخ حقیقتوں سے بھر پور ہیں۔ان کے کالموں کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے کالم نگار قاری کو لطیف اور لطیف تر رومانی ماحول اور فضا میں کھینچنے کی کوشش کرتا ہے پھر اس کے بعد زندگی کی تلخ سچائیوں انسانی نفسیات کی پیچد گیوںکو ذہن پر نقش کرتا ہے۔ فنی اعتبار سے شہزادہ بسمل ؔکے کالم ایک منجھے ہوئے لکھاری کے قلم اورفنی بصیرت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ان کا ایک مخصوص ڈکشن ہے، جس پر انھیں ماہرانہ قدرت حاصل ہے۔بقول ڈاکٹر جوہر قدوسی:’’خان صاحب قلم کے دھنی ہیں۔وہ کثیر نویس ہیں اور زوذ نویس بھی۔ وہ بیک وقت کئی اصناف ادب کی زلفوں کے اسیر ہیں۔۔۔انشائیہ نگاری کو انہوں نے ایک نئی طرح دی ہے۔۔۔دسیوں انشائیہ ،درجنوں افسانے،بیسوں فکا ہیے اور معتدد مقالے لکھنے کے بعد وہ اب میدان تحقیق میں اتر گئے ہیں‘‘۔ شہزادہ بسمل صاحبؔ جتنے اچھے کالم نگار ہیں اس سے کئی درجہ بلند انسان ہیں۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ شہزادہ بسملؔکی کالم نگاری غور وفکر کا مطالبہ کرتی ہے ان کے کالموںمیں شدت احساس پوری طرح جلو گرہ ہے۔ اپنے موضوعات اور اسالیب کی رنگارنگی سے دبستان جموں و کشمیر میںشہزادہ بسملؔ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔
رعناواری سرینگر،رابطہ:9697330636