سابق حکومتوں نے بار بار ترقی یافتہ کشمیر کے خاکے میں رنگ بھرنے کا اعلان کیا تھا جس سے بظاہر یہی اخذ ہوتا تھا کہ انکی حکومت شہر سرینگر کو درپیش مسائل پر توجہ مبذول کرینگی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا ؟اسکا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ فی الوقت اتنا کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہی اس بات پر کسی کو اختلاف ہو کہ سرینگر کو تعمیر وترقی کے حوالے سے مجموعی طور کئی برسوں سے مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہاہے ۔ شہر کی پرانی بستیوں اور نئی رہائشی کالونیوں پر ایک سرسری نظر دوڑائیے تو صاف نظر آئے گا کہ کم و بیش 12لاکھ کی آبادی کا یہ مسکن ہر اعتبار سے پچھڑا ہواہے ۔ یہاں کی سڑکیں خستہ حال ہیں ،گلی کوچے مرمت اور دیکھ ریکھ کے لئے چیخ وپکار کررہے ہیں ۔گندے پانی کی نکاسی کا نظام مفلوج ہے ، بلدیاتی سہولیات کا فقدان اپنے عروج پر ہے ، ٹریفک جاموں اور اوورلوڈنگ کے ان گنت مسائل ہیں،گند اور غلاظت کے ڈھیر شہر کے چپے چپے پر بدنمائی میں اضافہ کرتے ہیں ۔اس ناگفتہ بہہ صورتحال کو بدلنے کے لئے اگر گورنر انتظامیہ کوئی عزم وارادہ رکھتی ہے تو اسکا ہر سمت سے خیر مقدم کیا جائے گا۔یہاں ہر شعبے میں مسائل کی اتنی بھرمارہے کہ جب تک ایک ہمہ گیراور ہمہ پہلو ترقیاتی منصوبہ ترتیب نہ دیا جائے اور پھر ترجیحی بنیادوں پر عوامی مسائل کا تیر بہدف حل نہ نکالا جائے اُس وقت تک سرینگر کو ایک قابل رہائش جدید شہر میں بدل ڈالنا دیوانے کی بڑ ہوگی ۔ فی الوقت سرینگر شہر کے لئے کیپٹل سٹی ڈیولپمنٹ پلان کے تحت کام چل رہے ہیں اس کے لئے چھ سو کروڑ روپے فراہم کرنے کا یقین دلایا گیا تھا اور یہ اعلان بھی ہوا تھا کہ اس رقم میں سے تمام حلقہ ہائے انتخابات کےلئے فنڈ فراہم ہونگے۔جبکہ سرینگر میونسپل کونسل، سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور لاوڈا کو نئے ڈیولپمنٹ پلان سے رقوم میسر رکھنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی۔ اس انتظام کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان محکمہ جات، جو عمومی اعتبار سے شہر کی ترقی کےلئے ستون کی حثیت رکھتے ہیں، کی کارکردگی کے عمومی فقدان کی وجہ سے شہر میں چاروں اورتباہی مچی ہوئی ہے۔ ماضی میں متعلقہ حکام ہی نے ڈرینج کے نام پر ان بستیوں میں کاغذی گھوڑے ضروردوڑاے اور خزانہ عامرہ کو دو دو ہاتھوں لوٹنے کے ریکارڈ بھی توڑے مگر عملی طور عوامی بہبود کا کوئی کام نہ کیا، نتیجتاً انکی بد انتظامی کا خمیازہ آج عوام الناس کو مفت میں اُٹھانا پڑ رہاہے ۔ اس حوالے سے اکنامک ری کنسٹرکشن ایجنسی کا رول کافی حوصلہ شکن رہا ہے۔ کہنے کو یہ ادارہ سڑکوں کا جال بچھانے اور ڈرینج کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے معرض وجود میں لایا جاچکاہے مگر اس کی کارکردگی دیکھی جائے تو یہ فی الواقع لاوڈاکا مقلد دکھائی دیتاہے ۔ جس طرح لاوڈا ڈل اور نگین جھیلوں اور دوسرے بیش قیمت آبائی اثاثوں کی محافظت اور نگہداشت پر مامور ہونے کے باوجود قدرت کے ان حسین تحفوں کی ناقدری کرنے اور خودغرض عناصر کی پردہ پوشی کرنے میں پیش پیش ہے اُسی طرح کا رول ERA نے بھی نبھایا ۔۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نہ ان محکموں کا کوئی مواخذہ ہو تاہے نہ یہاں کے عوام کا کوئی پرسان حال ہے ۔حکومت اگرسرینگر کے نئے پلان کو ایک نعرے سے زیادہ حقیقت کے قالب میں ڈھالنے میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہئے کہ ڈرینج اور سڑکوں کی تعمیر ومرمت کے لئے ایک ایسا منصوبہ وضع کرے جس میں متعلقین کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ اور عوام دشمنانہ طرزِ عمل اپنانے کا کوئی رتی بھر امکان نہ رہے ۔ ہر کام ٹائم باؤنڈ ہو اور عوام کے لئے کوئی بھی پروجیکٹ سوہانِ رُوح نہ بنے ۔ کوشش یہ کی جائے کہ کم سے کم مدت کے اندر پروجیکٹ کو مکمل کرکے سڑکوں اور گلی کوچوں کو میکڈامائزکیا جائے ورنہ اگرکوئی پروجیکٹ شیطان کی آنت کی مانند طوالت کھینچے تو بہتر یہی ہے کہ اسے ترک ہی کیا جائے کیونکہ تیز رفتار زمانے میں کچھوئے کی چال چلنے سے ترقیاتی منظر نامے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شہر کی تاریخی آبگاہوں، جن میں ڈل، نگین، آنچار، خوشحال سر اور براری نمبل جیسی چھوٹی بڑی جھیلیں شامل ہیں، کو جو ہڑوںمیں بدلنے سے بچایا جائے ، تاکہ آنے والی نسلیں ہمارے عہد پر لعن وطعن کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ ان سارے منصوبوں کی عمل آوری میں یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ معاملات سیاست سے بالا تر ہوکر انجام کو پہنچائے جائیں۔چونکہ فی الوقت ریاست کے اندر صدارتی راج کے تحت گورنر انتظامیہ برسراقتدار ہے، لہٰذا ظاہر بات ہے کہ یہ انتظامیہ کسی سیاسی دبائو سے آزاد ہے۔ جس کی بنیاد پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ عوامی امور سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ انجام پائیں۔