ہیلو ! ہیلو ! سبحان چچا ۔۔ بِٹو بو ل رہا ہوں، الیکشن ہے الیکشن!۔۔ آپ کے پاس آ رہا ہوں۔
فون رکھتے ہی سبحان چچا گہری سوچ میں ڈوب گیا۔۔ ہائے خدا یا !۔۔’’ بر سوں کی یاریاں اور رشتہ داریاں پھر سے خطرے میں پڑ گئیں۔ اب کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں؟۔۔ کون قرآن پر ہاتھ رکھوائے گا اور کون گیتا کی قسم دے گا۔ ہائے !! انہیں کیا معلوم کہ یہ ان مقدس کتابوں کی بے حرمتی ہے۔ کون انہیں سمجھائے کہ ووٹ کو بیّت بھی کہتے ہیں اور یہ بیعت ان مقدس کتابوں کے ذریعے اللہ ، ایشور سے بندگی کے معاملے میں ہم کر چکے ہیں۔ اے اللہ ہمیں آسمانی اور زمینی عذاب سے محفوظ رکھنا ، ہم ایک بار پھر تیری مقدس کتابوں کی بے حرمتی کرنے لگے ہیں۔ ہم جھوٹ ، مکر و فریب ، دھوکہ دہی، ذاتی مفاد اور اپنے حریف کو شکست دینے کےلئے تیرے کلام کی بے حرمتی اور گستاخی کرنے لگے‘‘
سجان چا چا! سبحان چاچا ! ۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے؟’’ سبحان چا چا میں راجہ ہوں ‘‘
آؤ بیٹا آؤ، میں تمہیں ہی اپنے خیالوں میں تلاش کر رہا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ تم عین موقع پر آ گئے ہو۔ بولو بیٹا کیسے آنا ہوا؟
’’سبحان چا چا ! آپ کو معلوم کہ آج الیکشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر اُمید وار کے پاس گاؤں کی ترقی کا ایک خاکہ اور منشور ہوتا جسے وہ یقینی طور پر پانچ سال میں حاصل کر سکتا ، مگر بد قسمتی سے ان اُمیدواروں کے ہاتھوں میں ترقی کے منشور کے بجائے قرآن اور گیتا ہے، اور اگر کسی کے پاس الیکشن منشور ہے بھی تو وہ کسی اور نے لکھا ہے، جس کی اُمیدوار کو بھی خبر نہیں ہے ۔ اب سبحان چا چا میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ گاؤں میں بڑے ہیں ، سوامی جی بھی آپ کے قریبی دوست ہیں ، وہ بھی اپنی برادری میں قابل عزت مانے جاتے ہیں ، صاحب الرائے آدمی ہیں آپ دونوں، لوگوں کو سمجھا ئیں کہ ہر آدمی کو آ ئین نے یہ حق دیا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا استعمال کرے۔ لہذا اس پر رشتے ناطے نہ توڑے جائیں، شوہر اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، یاریوں اور رشتہ داریوں میں بائیکاٹ نہ کیا جائے‘‘۔
’’ راجہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ جو قرآن اور گیتا کی بے حرمتی ہو رہی ہے اس کو کیسے روکا جائے! ‘‘
’’ سبحان چا چا ایک راز کی بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں ؟‘‘ ’’ نہیں راجہ کہو حق بات میں کیا ناراضگی ہے۔‘‘
’’ سبحان چا چا آپ نے لوگوں کو ان کتابوں کی عظمت ہی کب بتائی ؟ ان کا منشور کیا ہے؟ جب وہ آپ نے چھُپایا تو عام لوگوں کے ہاں یہ مذہبی کتاب بن کر رہ گئیں، جنہیں پڑھنا ثواب کا کام جانا گیا اور جو لوگ ان کی قسمیں کھا ئیںاُن کی باتوں کا یقین کیا جائے، اس سے زیادہ ان کی عظمت نہیں رہی ۔ یہ کتابیں طاق سے باہر تبھی آ جاتی ہے جب اسے قسم اٹھانے کےلئے سر پر رکھنا ہوتا ہے۔ ایک اور بات سبحان چا چا میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ آپ قرآن اور گیتا کا حلف کیوں لیتے ہو ! اور میں تو حیران اس وقت ہوا جب ایک صاحب نے کہا کہ راجہ ،جیتا ہو ا اُمیدوار جب پانچ سال لگا تار جھوٹی قسمیں کھا سکتا ہے ، قسم کھا کر ہمیں د ھوکا دے سکتا ہے ، ہمارا وقت برباد کر سکتا ہے ، ہم اگر ایک بار جھوٹی قسم کھائیں تو کیا فرق پڑ سکتا ہے؟۔ میں نے اُن صاحب سے پوچھا کہ جھوٹی قسم کھانے کا مطلب ؟ تو اُس نے ا یک زور دار قہقہ لگا یا اور کہا کہ حلف ایک سے لینا ہے اور ووٹ دوسرے کو دینا ہے، یعنی اُس کا ہتھیار اُسی کے خلاف استعمال کرنا ہے بعد میں اوپر والے سے معافی مانگیںگے وہ معاف کرنے والا ہے۔ اسکی یہ باتیں سن کر مجھے خلیل جبران کی بات یاد آگئی ، خلیل جبران کہتا ہے ’’ اُس نے کہا ، میں نے مان لیا ، اس نے زور دے کر کہا، مجھے شک ہوا، اُس نے قسم اٹھائی مجھے یقین ہو گیا یہ جھوٹ بو ل رہا ہے‘‘ ( خلیل جبران)‘‘
���
صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہ
موبائل نمبر؛9797497215