یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جس مسلم شہری سماج میں ہم اور آپ رہ رہے ہیں،اس میں ’’گورکن‘‘ یعنی قبر کھودنے اور مردے دفن کرنے والے اور مر دے کو غسل دینے والے غسال( مرد و زن) کو بالعموم حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔حالانکہ یہ لوگ بھی ہمارے مسلم سماج کا ایک لازمی حصہ ہیں، انسان ہیں، کشمیری ہیں، مسلمان ہیں۔ ان خصوصیات کے باوجود ان کا سماجی رتبہ اتنی تحقیر وتذلیل کا نشانہ کیوں ؟ یہ سوال خاص طور اپریل2010ء سے متواتر میرے ذہن میں کھٹکتا رہا اور اس حوالے سے مجھے حقائق کی تہ میںجانے کی ترغیب دلائی۔ میر ے سوال کا یہ جز طرح طرح کے خیالات کے سمندر میں میرے سوچ کے سفینے کو ہچکولے کھانے پر مجبور کرتا رہا کہ یہ لوگ جو مردوں کو دفن کر کے ان کی پردہ پوشی کا سامان بنتے ہیں،اگر یہ محسن نہ ہوں تو کیا انسانی لاشے سر راہ نہ سڑ جائیں گے ؟ اس سوال نے مجھے گورکنی کا پیشہ رکھنے والوں کے بارے میں کماحقہ جانکاری حاصل کر نے میں اس لئے کوشاں رکھا تاکہ اس محدود آبادی کا سماجی و قار بحال ہو۔ شہر خاص سری نگر کا وسیع وعریض قبرستان موسوم بہ ملہ کھاہ شہر کے شمال میں کوہ ماراں پہاڑ کے دامن میں قریب بارہ مربع کلو میٹر رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔ کوہ ماراں پر حضرت شیخ حمزہ مخدوم صاحبؒ کی زیارت اور شار کا دیوی کا مندر موجود ہیں۔ گورکن طبقے کا ایک بڑا حصہ ملہ کھاہ میں ہی رہایش پذیر ہیں۔ ان کا شکوہ ہے ہم اپنے ہی ہم وطنوں میں گویا اچھوت بنے ہیں، حتیٰ کہ رشتہ ڈھونڈنے میں بھی ہمیں بہت ساری دشواریا ںپیش آتی ہیں۔ اس صورت حال سے دل کو بڑی تکلیف محسوس ہونا ظاہر سی بات ہے ۔ کہتے ہیں کہ سو سال قبل ایسے متعدبہ لوگ یہاں موجود تھے جو مردوں کی تدفین کاکام کرتے تھے، لیکن زمانہ کے بدلاؤ سے اس طبقے نے اپنا آبائی کام دھندا سماجی وجوہ کی بنا پر لگ بھگ چھوڑ دیا ہے۔ اب پورے سرینگر میں صرف بارہ کنبے ہوں گے جو گورکنی سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہوں۔ ایک یا دو پیڑی قبل جو لوگ گورکنی ترک کر چکے ہیں ،وہ اب مزدوروں کو قبر یں کھد وانے پر مزدورلگاکراپنا کمیشن پا لیتے ہیں۔ مزدوروں کی اُجرت پانچ سو روپے فی قبر مقرر ہے مگر صاحب تعزیت ثواب جان کر دو سے پانچ ہزار روپے گورکن کو بخوشی دیتا ہے لیکن ستم یہ کہ جو خود اپنے ہاتھوں قبر کھود دیتا ہے ،اسے پانچ سو بھی بمشکل ملتے ہیں۔ کام یہ کرتے ہیں اور پیسہ سیٹھ لوگ اینٹھتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شہر کوچھوڑ کرکشمیر کے دوسرے خطوں میں قبر یںکھودنے کا کام میت کے رشتہ دار یا مقامی رضا کار کرتے ہیں جس سے صاحب تعزیت کو مردے کی تجہیز وتکفین میں کوئی مشکل ہی نہیں آتی ۔ سابق وزیراعلیٰ شیخ صاحب نے ایک موقع پر ا س وقت کے نیشنل کانفرنس صدر دفتر مجاہد منزل سری نگر میں اعلان کیا تھا کہ سرینگر میں گورکن کے لئے الگ محکمہ بنایا جائے گا جو مسلم اوقاف ٹرسٹ کی ماتحتی میں ہو گا اور تمام گورکن اس کے ملازم ہوں گے۔ آج تک نہ اس وعدے کا وفا کیا گیا ، نہ شیخ صاحب کے بعد ان کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداﷲ صاحب اور پوتے عمر عبداﷲ نے ہی گورکنوں کو اوقاف اسلامیہ میں نوکری دینے میں کوئی دلچسپی دکھائی ۔ حکمرانوں اور سماجی بہبود کے اداروںنے کبھی بھی محدودوالتعداد گورکنوں کی آبادی کے سماجی وقار کو بحال کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ حد یہ کہ ان لوگوں کو درجہ فہرست ذاتوں اور قبیلوں کی طرح کوئی سرکاری رعا یات بھی حاصل نہیں ۔ لگتا ہے جیسے سماج اور حکومت نے مشترکہ طور ان کم نصیبوں کو انسانی برادری سے پوری طرح خارج کر دیا ہے۔ آج کا انسان ترقی یافتہ دور سے گزر رہاہے مگر اس کے باوجود آج کا انسان ابھی حیوانی سطح پر جینے کا تاثر دے رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت گور کنوں( ملہ کھاشی) کی حالت ِزار ہے۔ حالانکہ شرع شریف کے مطابق یہ اہم کام بڑے بڑے صحابہ کبارؓ ، اولیاء کرام ؒ اور بزرگان ِدین نے بطور فرض ادا کیا لیکن ایک ہم ہیں کہ یہ اہم کام کر نے والوں کو نیچ نظر سے دیکھتے ہیں ۔اس سے پہلے کہ یہ اہم پیشہ کوئی اپنانے پر تیار ہی نہ ہو ، ہمیں عزم بالجزم کر نا ہوگا کہ سماج میں گورکنوں کو حقارت کی نظر سے نہیں بلکہ عزت کی نگاہ سے دیکھیںتا کہ یہ بھی سر اونچا کر کے جئیں۔
…………………
رابطہ :۔ 9469679449
ای میل : [email protected]