ریاست کے اندر آبادیوں کے بے ترتیب پھیلائو کے بہ سبب جو دنیا ترتیب پا رہی ہے ، آنے والے قتوں میں وہ لوگوں کےلئے نہایت تکلیف دہ مشکلات کا سب بن کر سامنےآ سکتی ہے، کیونکہ ان بستیوں کو کسی منصوبے سے ماوریٰ ہو کر آباد کیا جاتا ہے، جن میں نہ تو بنیادی شہری سہولیات موجودومیسر ہوتی ہیں اور نہ ہی انکے فروغ کی کوئی گنجائش ۔ وزیر تعمیرات نعیم اختر نے گزشتہ دنوں ایک تقریب کے دوران اس ضمن میں شہر سرینگر کے بے ترتیب پھیلائو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر زمین دلالوں کے منشا کے مطابق پھیل گیا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے،جس سے صد فی صد اتفاق کرنا غلط نہیں ہوگا، کیونکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران شہر سرینگر میں آبادیوں کے پھیلائو کے دوران منصوبہ جاتی ضرور توں اور حقائق کو قطعی طو رپر نظر انداز کر دیا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے وقت وقت پر منصوبے مرتب نہیں کئے ہوں بلکہ سرینگر کےلئے ایک ماسٹر پلان ضرور موجود ہے ، لیکن جب عملی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو یہ منصوبے کاغذی گھوڑوںکے سوا کچھ نہیںلگتے ، کیونکہ بے ترتیب بستیوں کے پھیلائو میں مفاد خصوصی رکھنےوالے عناصر کو ان ہی سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون اور اعانت میسر ہوتا ہے، جو ان منصوبوں کے نفاذ کےلئے ذمہ دار ہیں۔ خواہ وہ سرینگر میونسپل کارپوریشن ہو ، سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہو یا لاوڈا، سبھی ادارے کسی نہ کسی سطح پر اس کھلم کھلا جنگل راج کےلئے ذمہ دار ہیں۔ وزیر تعمیرات شاید اس بات سے اختلاف نہیں کرینگے کہ دلالوں کے حلقوں، جو عرف عام میں اب لینڈ مافیا کے نام سے موسوم ہیں، اور حکمرانوں کے مابین مضبوط رشتے اور تعلقات ہوتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر دونوں ایک دوسرے کےلئے پشتی بان ثابت ہوئے ہیں، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ مشترکہ مفاد بروئے کار لا نے کےلئے منظور شدہ پالیسیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ وزیر تعمیرات سیاست میں آنے سے قبل خود ایک اعلیٰ بیروکریٹ رہے ہیں، لہٰذا معاملے کے سبھی پہلوئوں پر انکی گہری نظر ہوگی۔ اس سارے عمل میں کشمیر کو دوہرے نقصان سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ ایک طرف اقتصادی خود کفالت کے بنیادی ذریعہ زرعی اراضی، جو صدیوں تک کشمیری عوام کی حریت فکر کا مسلمہ و سیلہ رہی ہے، کو ان بے ترتیب و گنجلگ بستیوں کے جنگل کی تشکیل کی بھینٹ چڑھا کر معیشی انحصار کے سیاہ ابواب تحریر کئے گئے تو دوسری جانب شہری منصوبہ بندی کے قواعد و اصولوں کو روند ھ کر ایک ایسے رجحان کو فروغ دیا گیا، جو لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کو مٹی میں ملانے کا سبب بنا ہے۔ اس بات کا ذکر دلچسپی سے شاید خالی نہیں ہوگا کہ اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے مقامی سطح پر بہت ہی قلیل فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ تعمیری سرگرمیوں میں کام آنے والا بیش تر سازو سامان بیرون ریاست سے آتا ہے، حتاکہ اب اس میں کام آنے والے انسان وسائل کےلئے بھی ہمسایہ ریاستوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کےلئے اگر چہ عام لوگوں کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن بہ ایں ہمہ منصوبہ بندعمل آوری کےلئے حکومت ہی ذمہ دار ہے۔ شہر سرینگر گزشتہ چند دہائیوں سے جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، اُس کے نتیجہ میں شہر کے مضافات میں واقع زیر یں سطح کی زمینیں، جو تاریخی اعتبار سے زائد پانی کو سنبھالنے کا کام دے کر بالائی بستیوں کو سیلاب جیسی ایمر جنسیوں میں بچانے کا سبب بنتی تھیں، آج کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد کم و بیش ایک سال تک ان بستیوں کے اند رکسی نہ کسی طور پانی کی سطح بلند رہی، جس سے وہاں کے باسیوں کو بے بیان مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایسا کیوںہوا ہے، اس کا جواب سر کار اور سرکاری اداروں کو تلاش کرنا چاہئے ۔ آج کی تاریخ میں شہری تعمیرات سے متعلق سرکاری صیغوں کےلئے سرینگر ماسٹر پلان پر عمل آوری بنیادی ترجیح ہونی چاہئے۔ کیونکہ جس پیمانے پر تباہی ہو چکی ہے، اُسکا صد فی صد ازالہ تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن مستقبل کو بربادی کے سیلاب بے پیکران سے محفوظ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جاسکتی ہے اور اسکی ضرورت ہے۔ ورنہ آنے والے ایام میں یہ شہر جونپڑپٹیوں کی ایک ایسی بدنما د نیا میں تبدیل ہوگا، جہاں نہ سڑکیں ہونگی نہ نکاسی آب کا بندوبست ، نہ کھلی دھوپ اور نہ ضرورت کے مطابق ہوا اور نہ ہی ایمرجنسی کا سامنا کرنے کی صلاحیت میسر ہوگی اور ان بستیوں کے اندر انسانوں کے نام پر رینگتے سایوں کے مجموعے ہونگے۔ وزیر تعمیر کے تبصرے سے اس سارے عمل پر انکی دردمندی عیاں ہے، لہٰذا ان سے یہ ضرور توقع کی جانی چاہئے کہ گزری دہائیوں میں پیدا شدہ خامیوں کو وہ دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، جس کے لئے دلالوں اور لینڈ مافیا کے اثر و نفوذ کو ذائیل کرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔اگر وزیر موصوف آوارہ لہروں پر تیر رہی اس بے سمت کشتی کو ئی سمت عطا کرکے کنارے لگانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ قوم کے تئیں انکی ایک ناقابل فراموش خدمت ہوگی اور ظاہر ہے سنجیدہ فکر اور مخلص عوام ایسے کام میں تعاون فراہم کرنے میں کبھی بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔