وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بار بار شہر سرینگر کی ثقافتی اہمیت کے تئیں اپنے والہانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اسکی گمشدہ شادابی کو لوٹانے کا مکرر اظہار کرتی رہتی ہیں ، لیکن زمینی سطح پر جو صورتحال اُبھر کر سامنے آرہی ہے وہ اسکے برعکس ہے۔ سرینگر ایک ایسا تاریخی شہر ہے جس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور ان صدیوں کے دوران کیا کیا انقلابات پیش آئے ہیں وہ بھی اس تاریخ کا حصہ ہیں ، لیکن کافی عرصہ سے ان تاریخی نشانات کے ساتھ بے دردانہ کھلواڑ دیکھنے کو مل رہا ہے اور تعمیر وترقی کےنام پر یہ نشانات تباہی کا شکار ہو کر معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اس عمل میں کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ کسی نہ کسی وقت پر تمام حکمرانوں کا ہاتھ رہا ہے۔ اس کھلواڑ کا تازہ نمونہ شہر کے سول لائیز علاقہ میں دریائے جہلم کے اوپر ایک پُل کی تعمیر ہے، جو عبداللہ برج کے متصل تعمیر کیا جا رہا ہےاورجسکی تعمیر کی وجہ سے مشہور و معروف ایمپوریم گارڈن کا ایک اچھا خاصہ حصہ زیر تعمیر پل سے جوڑی جانی والی سڑک کی تعمیر کے لئے باغ سے علیحدہ کر دیئے جانے کا منصوبہ ہے ۔ایمپوریم گارڈن شہر کے چند ایسے بچے کھچے باغات میں ایک ہے جو اپنے بڑے بڑے چناروں اور مختلف اقسام کے جنگلی درختوںکے حوالے سے نہ صرف ممتاز ہے بلکہ اس باغ میں مختلف براعظموں کے اشجار کی موجودگی سے اسے ایک ایسا انفراد حاصل ہے جو غالباً کسی اور باغ کو نہیں۔تقریبا ًایک صدی قبل قائم کئے گئے اس باغ کے ساتھ ریاست جموںوکشمیر کی وہ تاریخ جڑی ہوئی ہے جوبیعہ نامہ امرتسر کے بعد کشمیر میں قائم ہوئے ڈوگرہ راج اور برٹش انڈیا گورنمنٹ کے تعلقات پر محیط ہے، جو ہر صورت میں کشمیر کی اُس مزاحمتی تاریخ سے جڑ جاتی ہے ، جو سابق ڈوگرہ حکومت کےخلاف مختلف ادوار میں یہاں جاری رہی ہے۔ ایمپوریم گارڈن جموںوکشمیر میں تعینات برطانوی نمائندے، جسے تکنیکی اعتبار سے ریزیڈنٹ کے نام سے پکارا جاتاتھا، کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی،جہاںبرطانوی ہند کے ساتھ ریاست جموںوکشمیر کے معاملات طے پائے تھے،لہٰذا اُس اعتبار سے یہ کشمیر کی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیشنل کانفرنس کے دور حکومت میں شہر کے اہم مرکز لالچوک کی ہیت کو برقرار رکھنے کے لئے کابینہ کے ذریعہ ایک حکمنامہ جاری کیا گیا تھا، جس میں لالچوک علاقہ میں عمارات کی تعمیر نو کے وقت انکی قدیم ہیت کو برقرار رکھنے کو پابند بنایا گیا تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسی حکومت کے دور اس علاقہ میں ایسی بے ہنگم تعمیری سرگرمیاں سامنے آئیں جنہوں نے اس تاریخی چوک کی ہیت بگاڑدی، جس کے ساتھ ڈوگرہ حکومت کےخلاف عوامی تحریک، الحاق ہند کے بعد وادی میں فوج کی آمد ،سابق وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لعل نہرو اور سابق وزیراعظم جموںوکشمیر شیخ محمد عبداللہ کے درمیان مشہور زمانہ دہلی اگریمنٹ اور بعد اذاں موئے مقدس تحریک اور محاذ رائے شماری تحریک کی تاریخ جڑی ہوئی ہے۔ مفتی محمد سعید کے دور حکومت میں عدالتوں کو اس علاقہ سے منتقل کرنے کا پروگرام مرتب کیا گیا، جو بعد اذاں سیلاب 2014میں روبہ عمل لایا گیا اور ابھی تک تاریخی عدالتی کمپلیکس کے مستقبل کے بارے میں کوئی عندیہ نہیں مل رہا ہے،جس کی وجہ سے یہ خطرہ برقرار ہے کہ حرص و آز کے مرید اسے کسی وقت کاروباری مرکز میں تبدیل نہ کریں ۔غرض ساری دنیا میں پرانے شہروںکے باقیات کو انتہائی زبردست اہمیت حاصل ہے لیکن یہاں ثقافتی تمدنی اور عماراتی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ہماری آنے والی نسلوں کو اس شہر کی خصوصیات کا علم صرف تاریخ کی کتابوں سے ہوگا، زمینی سطح پہ ڈھونڈنے سے بھی کچھ نہیں ملیگا۔ ایمپوریم گارڈن کی تباہی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جس پر حکومت میں شامل سنجیدہ فکر اراکین، جنکی بے شک کوئی کمی نہیں، کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تعمیر و ترقی کے نام پر کھلے اور ماحولیاتی اعتبار سے اہمیت کے حاصل مقامات کی ہیت اور حیثیت سے چھیڑ چھاڑ کرنا کسی بھی طور پر فائدہ مند نہیں ہوسکتا لیکن اس کے نقصانات اس قدر دور رس اور شدید ہوسکتے ہیں، جنکی کوشش کے باوجود بھر پائی ممکن نہیں ہو پائے گی۔