یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور حقائق بھی چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہمارے آبی ذخائر نہ صرف سکڑ رہے ہیں بلکہ یوں کہئے، معدوم بھی ہوتے جارہے ہیں اور یوں ہماری وادی ،جسے دنیا کے نقشہ پر جنت بے نظیر کی حیثیت حاصل تھی ، خشک اور ایک بے رنگ خطے میں تبدیل ہورہی ہے ۔وہ چہکتے رنگ برنگے پرندے ،انواع و اقسام کی مچھلیاں ،جھرنے ،آبشار ،سبزہ زار،مرغزار ،کوہ و دمن کے دلربا و دلکش اور دل کو چھو لینے والے حسین مناظر قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں ۔حد یہ ہے کہ دریا جہلم جووطن عزیز کے بیچوں بیچ بل کھاتے ہوئے اپنے حسن و رعنائیوں سے دلوں کو موہ لیتا تھا،بھی ایک چھوٹی سی ندی کا روپ دھار کرہمیں اپنے ماضی پر دو آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی دعوت دے رہا ہے کہ کچھ کرو کہ قبل اس کے میں تاریخ کی کتابوں میں مرحوم کے نام سے یاد کیا جائوں ۔
وادی میںاگرچہ ایک ہزار سے زائدچھوٹے بڑے آبی ذخائر اب بھی موجود ہیں لیکن وہ سب جان کنی کی حالت میںاپنی آخری سانس لے رہے ہیں۔یوں دیکھا جائے تویہ آبی ذخائر نہ صرف ہماری اقتصادیات اور موسم کو متوازن رکھنے میں معاون ہیںبلکہ مختلف پرندوں جن میںمہمان پرندے بھی شامل ہیں ،کے لئے مہمان خانے کی حثییت رکھتے ہیں۔
درختوں کے بے تحاشا کٹائو،بستیوں کے پھیلائو،فیکٹریوں اور سڑکوں کی بے ہنگم و غیر منصوبہ تعمیر اور سیاسی اثرورسوخ کے زیر اثر سرکاری و غیر سرکاری اراضی کی تقسیم و الاٹمنٹ نے ہمارے سامنے پہاڑ جیسے مسائل کھڑے کردئے اور فضائی آلودگی ،گندے پانی کی نکاسی اور گندگی کو ٹھکانے لگانے سے متعلق ابھررہے مسائل بلائے بے درماںکی صورت اختیار کرچکے ہیں اور ندی نالے و جھرنے بس قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں۔
ریاست میں گندے پانی کے نکاس سے متعلق کوئی سائنٹفک نظام اور منصوبہ بند طریقہ موجودنہ ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے آبی ذخائر گندے پانی کے ذخیروںمیں تبدیل ہورہے ہیں اور آس پاس کی گندگی اور فضلہ وغیرہ اس کی تہہ میں جمع ہوکر اس کے سوتے بند کررہے ہیں اور نتیجتاََ ان کی گہرائی کم ہوتی جارہی ہے ،پانی کی سطح بھی گررہی ہے اور رنگ بھی تبدیل ہوکر اس سے تعفن اٹھ رہا ہے ۔مزید یہ کہ ان آبی ذخائر کا رقبہ اور حجم تیزی سے سکڑ رہا ہے ۔
انسان بھی کتنا خود غرض ہے ،جو اسے زندگی مہیا کررہا ہے ،اسے تیغ و تبر سے مٹانے اور بیخ و بن سے اُڑانے کے لئے اُتاولے پن کا مظاہرہ کررہا ہے ۔بے ہنگم عمارتیں کھڑی کرکے ،آسمان کو چھونے والے سیمنٹ اور کنکریٹ کی عمارتیں تعمیر کرکے اتراتا ہے لیکن کبھی حضرت انسان نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اس چمچماتی ترقی اور بے ہنگم تعمیراتی رفتار اگر اسی طرح جاری رہی تو مستقبل قریب میں اسے سانس لینا بھی دشوارہوگا۔
تعمیر و ترقی کے نام پر اپنے پائوں آپ کلہاڑی مارنے کے اس عمل کو کچھ بھی نام دیا جائے ،بہر حال اس کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم قدرت کے نظام میں بے جامداخلت کرکے اپنی زندگی کو اجیرن بنانے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسل کے لئے بھی مسائل کا انبار ورثے میں چھوڑ رہے ہیں ۔
انسان اپنے اس بھرم کو قائم رکھنے کے لئے کبھی اسے تعمیر و ترقی سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی انسانی زندگی کے عروج کا عنوان عطا کرکے اتراتا ہے اوراس بے ہنگم ترقی کے دعوے کو اپنی دانست میں درست ثابت کرنے کے لئے قدرت کے نظام میں نہ صرف مزید مداخلت کی راہ کے لئے جواز پیدا کررہا ہے بلکہ قدرتی بنائو کوبگاڑ پیدا کرکے اپنے لئے اور آنے والے نسلوں کے لئے سانس لینے کے عمل کو بھی دشوار بنارہا ہے ۔
یہ آبی ذخائر اگرچہ انسانی مداخلت کی وجہ سے تیزی سے معدوم ہوتے جارہے ہیں،البتہ گلوبل تبدیلوں اور آس پاس کے جنگلات اور بستیوں میں صنعتی سرگرمیوں کی وجہ ان کے معدوم ہونے کی بھی ایک بڑی وجہ ہے اوران آبی ذخائر پر تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات روکنے کے لئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی جارہی ہے یا سیاسی اثر و رسوخ آڑے آرہی ہیں۔
انسانی مداخلت اور زمین ہڑپنے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ 1911سے لے کر اب تک دس ہزارہیکٹر کے قریب آبی ذخائرانسانی لالچ کی وجہ سے چھن گئے اور یوں نصف کے قریب ان ذخائر کو انسانی سرگرمیوں کے لئے استعمال میں لاکر ایک بڑی تباہی کو دعوت دی جارہی ہے ۔
دنیا بھر میںاپنی رعنایت اور خوبصورتی کے لئے مشہورجھیل ڈل چالیس سال کے عرصہ میں نصف تک سکڑ رہ گیا اور اس سے ملحق آنچار،خوشحال سرآس پاس کی بستیوں سے گندے پانی کی نکاس کی وجہ سے اس میں گندگی جمع ہوئی اور دھیرے دھیرے یہ گندی بستیوں میں تبدیل ہوئے کہ اب یہ آبی ذخائر صرف پٹواری کے ریکاڑ میں درج ہیں اور عملاََ ان کا وجود مٹ چکا ہے اور جھیل ڈل سے جو پانی ان چھوٹے بڑے ذخائر کو سیراب کررہاتھا، وہ نالے اب کوڑے کرکٹ اور گندگی سے بھر کر خشک ہوچکے ہیں اور پانی ان چھوٹے بڑے ذخائرتک رسائی سے محروم ہوچکا ہے اور یوں یہ آبی ذخائرسکڑ کر مٹ رہے ہیں۔
ریاستی انتظامیہ کی غفلت شعاری اور محکمہ مال کی بے عملی و بے توجہی اورانتظامیہ میں رشوت کے ناسور سرایت کرنے کی وجہ سے یہ سبھی آبی ذخائر لبِ گور ہیں ۔ان کے بچائو کی واحد صورت یہ ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ان کے کناروں اور آس پاس کی بستیوں میں فوری طور تعمیرات پر روک لگائی جائے اورSLITنکالنے کے لئے ان میں کھدائی کرنے کی کی شروعات ہنگامی بنیادوں پر شروع کی جائے ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست میںنالہ لیدر ،ہوکرسر،جھیل ڈل،ولر،مانسبل اور اس طرح کے کئی دیگر آبی ذخائر کو دیکھنے کے لئے ہرسال تقریباََدس لاکھ سیاح سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں اور تین لاکھ لوگوں کا روزگار ان آبی ذخائر سے جڑا ہوا ہے اور انتظامیہ پندرہ فیصد آمدنی حاصل کررہی ہے اور اس میں وہ آمدنی شامل نہیں جو ریاستی سرکار بجلی پیدا کرکے NHPCسے حاصل کررہی ہے۔آئے جائزہ لیں کہ ان آبی ذخائر کے رقبے سکڑ کر ہمارے لئے اپنے دامن کیا لے کر آرہے ہیں۔
ان آبی ذخائر سے چھیڑچھاڑ کے نتیجے میں سیلاب بھی آفت کی صورت اختیار کررہے ہیں ،طغیانی اور بارشوں کے موسم میں جو اضافی پانی ان آبی ذخائر میں جمع ہوتا تھا ،اب قہر ڈھاتا ہوا بستیوں میں داخل ہورہا ہے ۔یہ آبی ذخائر اس اضافی پانی کو اپنے دامن میں سموکر انسانی بستیوں کا بچائو کررہے تھے لیکن ان میں تعمیرات کھڑی کرکے ،انہیں کوڑے دان میں تبدیل کرکے ہم نے قدرتی نظام کو تلپٹ کردیا اور یوں یہ پانی اب تباہی کا مہیب دیوبن کر اور بستیوں کو تاراج کرتا ہوا اپنے پیچھے تباہی کے نشان چھوڑ رہا ہے۔
سرینگر کے وسط میں موجود بابہ ڈیمب ایک ایسے نگینہ کی طرح تھا ،جو سرینگر کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث تھا،لیکن نالہ مار میں بھرائی کے بعد اس کی شناخت اور وجود کو خطرے نے آگھیرا اور یوں یہ دن بہ دن سکڑنے لگا ۔اس پر مستزاد یہ کہ ارد گرد رہنے والے اور سیاسی اثرو رسوخ کے مالک لوگوں نے اس کے حصے بخرے کردئے ،اس میں گندگی جمع کی اور اس پر تجاوزات کھڑی کرکے اپنے شہری احساسات پر سوالیہ نشان ثبت کئے ۔
اگرچہ کئی حساس لوگوں نے انفرادی سطح اور کئی تنظیموں نے حکومت کی توجہ اس جانب کرنے کی کوششیں بھی کی لیکن آج براری نمبل جس حالت میں ہے ،اس سے یہ اندازلگانامشکل نہیںکہ اگلے ایک دو برس میں اس کا وجود صفر کی حد تک سکڑ جائے گا اور شاید تاریخ کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر نہ رہے گا۔
اس کے اردگرد رہنے والے لوگوں نے اپنے رہائشی مقاصد کے لئے استعمال میں لائے جارہے تعمیرات سے نکل رہے فضلہ اور گندے پانی کی نکاسی کے لئے اسے ایک گندے جوہڑ میں تبدیل کیا ہے اور موسم گرما کے شروعات کے ساتھ ہی اس سے ناقابل برداشت تعفن کی وجہ سے یہاں سے گزرنے والے لوگ اپنی ناک بند کرکے ہی گزر جاتے ہیں۔
یہ بات انتہائی دکھ دینے والی ہے کہ انتظامیہ نے اگرچہ اس کی گہرائی کو مناسب سطح تک لانے کی کوشش کی لیکن اس کی Drudging کے دوران جو مٹی اور گندگی نکالی گئی ، اسے اس کے کناروں پر جمع کرکے اس کے رقبہ کو اور کم کیاگیا اور یوں یہ تدبیر و علاج اس سے زندگی بخشنے کے بجائے اس کے لئے جام مرگ ثابت ہورہاہے۔
ذی حس عوام اور حساس دلوں کے مالک عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ اس آبی ذخیرے میں مٹی سے بھرائی ،فلنگ ،دکانات اور فیکٹریاں تعمیر کس کی اجازت سے کی جارہی ہے اور مزید برآں اس بات کی بھی تحقیق کی جائے کہ گندے پانی کے نکاس کے لئے اس میں پلانٹ کس کی ایما پر شروع کیا گیا۔
عوامی ادارے اور فلاحی تنظیمیں اس بات کے بھی شاکی ہیں کہ اگر اسی طرح بے ہنگم تعمیرات کا سلسلہ جاری رہا اور یہ صورت حال برقرار رہی تو اس کی بدبو نہ صرف آس پاس کی بستیوں کو متاثر کرے گی بلکہ یہ بیماریاں پھیلانے کا بھی موجب بنے گا ۔ضرورت اس بات ہے کہ انتظامیہ اس کی طرف فوری توجہ دے اور اسے ایک گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لئے اس کے کناروں اور اردگرد تعمیرات کو ہٹانے کی ایک پُر زور مہم چلائے اور بستیوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے پانی کے نکاس اور فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لئے متبادل انتظامات کریں ۔اس طرح سرینگر کے وسط میں موجود اس آبی ذخیرے کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ممکن ہوگا اور سانس لینے کے لئے ایک وسیع رقبہ بھی فراہم ہوگا ۔اگر اس طرح کے اقدامات دیگر ممالک اور جگہوں میںممکن ہیں تو یہاںکیوں نہیں ۔کچھ کیجئے قبل اس کے کہ دیر ہوجائے ۔
فون نمبر9622555263