یہ شہرِ خموشاں ہے …!
دور دور تک تربتوں کے کھیت
کھیتوں میں ان گنت خودرو سوسن کے پودے
خود اپنے آپ کی کاشت کرتے رہتے ہیں
پودوں میں سرخ پتے ہیں
جن پہ گہرے داغ ہیں
محبوب کے تِل کی طرح
ہر داغ ہرا ہرا تازہ تازہ سا
لگتا ہے
کہیں کہیں گہرے گھاؤ ہیں
جن میں اندھی گولیاں اور
بینا چھرے ابدی نیند سمیٹے ہوئے ہیں
مہکتے سوسن کے پھولوں سے اُٹھی تازہ لہو کی خوشبوئیں
شہرِ خموشاں کی فضائیں مہکائے رکھتی ہیں
پوہ پھٹتے ہی پودوں کو پرندوں کی چہک جگا دیتی ہے
ابابیلیں رقص کرتی ہیں
چھوٹے چھوٹے کنکروں کے ساتھ
ریت کے زرّوں کی پازیبیں باندھ کر
سلگتی ریت کے دہکتے سینے پر
اوس چہرے دھو دیتی ہے
بادِ صبا شب گزیدہ اشک پونچھتی ہے
سورج کی شعائیں شب کی سیاہی چوس لیتی ہیں
کرب کا موسم دْکھ کا ناشتا کرواتا ہے
فضاء سورہ فاتحہ دم کرکے بلائیں لیتی ہے
دھوپ درد سہلاتی ہے
بارش آکر نہلاتی ہے
سلگتی دوپہر تڑپاتی ہے
شام گدگداتی ہے
شب کی دادی لوریوں کی پالکی میں سلاتی ہے
چاند تاروں کو ستی سر میں لے آتا ہے
اک نئی کہانی سناتا ہے
نیلے گگن سے اپسرائیں زندگی کے خواب لے کر اترتی ہیں
بہشت کی وادی میں
سلسبیل کے کنارے میلہ لگتا ہے
ان دیکھے اْجڑے خوابوں کا
چور چور درپنوں کے بے رنگ سبزہء عکس پر
دکھ کے خاموش گیتوں کی چیخیں سْن لو
سسکیان ہیں ہچکیاں ہیں
بے بس اماں کی
مہندی رچائے بہن کی
ہمسفر ہم نوا کی
تھکے تھکے ابو کے شکست خوردہ کاندھوں کی
ٹوٹے پھوٹے رشتوں کی
خوابوں کی فضاء میں بارود کا دھواں ہے
دہشت کا نشہ ہے، سرور ہے
خوف میں سازِ سلاسل ہے
پیلٹ کا اندھیرا ہے
زنجیر کی جھنکار ہے
حبس کا کہرا ہے
صعوبت کا سوزِ مترنم ہے
پہچان کے سوال ہیں
گونگے جوابوں کے قہقہے ہیں
بصارتوں کے جنازے ہیں
گمشدگی کا سرطان ہے
یہ شہرِ خموشاں ہے
یہی مرا مسکن ہے
میں یہاں کا پشتنی باشندہ ہوں
میں مہکتا سوسن ہوں
تربتوں کے کھیتوں کا
مری لوحِ مزار مری شناخت ہے…!!!