کشمیر کی صورتحال میں ہر نیا دن گزرنے کے ساتھ نت نئے پہلو معرض وجود میں آرہے ہیں ، خاص کر شہری ہلاکتوں کے حوالے سے صورتحال تیزی سے دگر گوںہو رہی ہے۔ کیونکہ پیش آمدہ ہلاکتوں کے حوالے سے مختلف سیکورٹی اور پولیس اداروںکے بیانات اور وضاحتوں میں کوئی تال میل نہیں ہوتا۔ شوپیان میں ایتوار کے روز پیش آئے شہری ہلاکتوں کے معاملے میں بھی یہ تضاد واضح موجود ہے کیونکہ واقعہ کے فوراً بعد فوج نے جان بحق ہوئے شہریوں کو جنگجوئوں کے بالائے زمین کارکن جتلایا جبکہ پولیس نے اپنی طرف سے کوئی دلیل پیش نہیں کی بلکہ اپنی وضاحت میں فوج کی طرف سے پیش کئے گئے ڈاکٹ کا حوالہ دینے پر ہی اکتفا کیا مگر جہاں تک ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ٹویٹ کا تعلق ہے تو انہوں نے شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے اسے کراس فائرنگ کا نتیجہ قرار دیا ، جسکا واضح مطلب یہی ہو سکتا ہے مہلوک شہری فوج اور جنگجوئوں کے مابین گولیوں کے تبادلے میں مارے گئے۔ واقع کے بارے میں حکومت کے ماتحت اداروں کی جانب سے من حیثیت المجموع مختلف اور متصادم مواقف سامنے آنے سے کنفیوژن کی ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے ، جس میں کسی پر اعتبار کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے چونکہ شہری ہلاکتوں کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر پہلے ہی عام لوگوں میں برہمی پائی جاتی ہے، لہذا موجودہ معاملے سے یہ دو چند ہو سکتی ہے۔ نیز اس سے عوام کا اعتماد مزید متزلزل ہو سکتا ہے ۔صورتحال کیا رُخ اختیار کرے، اسکے کوائف اور متعلقات کی واقفیت عام شہریوں کا بنیادی حق بنتا ہے لیکن اگر سرکاری اداروں کے مؤقف اور وضاحتوں کی وجہ سے حقائق سامنے آنے کے بجائے الجھائو میں اضافہ ہو تو یہ شہریوں کی حق تلفی کے برابر ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر اس طریقۂ کار کو تقویت حاصل ہو جائے تو یقینی طور پر حالات میں بہتری آنے کی بجائے مزید خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔ ایک جانب وزیر اعلیٰ اور سرکار کی جانب سے ریاست میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے متواتر بیانات اور دعوے سامنے آ رہے ہیں مگر دوسری طرف اس طرز عمل سے خوف و ہراس اور بے یقینی کی جو کیفیت مجسم ہو کر سامنے آ رہی ہے، اسمیں سیاسی معیشی اور سماجی فروغ کی امیدیں قائم کرنا رات کو دن کہنے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل بھی شوپیان میں ہی پیش آئے شہری ہلاکتوں کے واقع پر عوام کی جانب سے برہمی کے نتیجہ میں مجسٹریل تحقیقات کا حکم دیا گیا لیکن وہ بھی اسی نوعیت کے کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گیا کیونکہ ایف آئی آر میں متعلقہ فوجی افسر کا نام درج کرنے کے حوالے سے ایک بڑا مباحثہ کھڑا کیا گیا۔ اب اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریاستی حکومت نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ایف آئی آر میں مذکورہ افسر کا نام شامل نہیں، چنانچہ فی الوقت عدالت عظمیٰ نے معاملے کی تحقیقات پر روک لگا دی ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقوں میں اس بات پر انتہائی عدم اطمینان پایا جا تا ہے کہ شہری ہلاکتوں کے بیش تر واقعات کے حوالے سے الجھائو پیدا کرکے صحیح صورتحال کو سامنے نہیں آنے دیا جاتااور نہ ہی تحقیقاتی عمل کو آگے بڑھاکر ممکنہ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے۔ نتیجتاً عوام اور حکومت کے درمیان معاملات کے افہام میں خیلج مزید وسیع ہو رہی ہے، جو کسی بھی جمہوری نظام کے کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہو سکتی۔ فی الوقت ریاستی حکومت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہلاکتوں کے اس تازہ واقع کے حوالے سے پیدا شدہ گردو غبار کو صاف کرکے حقیقی صورتحال کو سامنے لانے کی کوشش کرے۔وزیر اعلیٰ چونکہ سیکورٹی اداروں کی متحدہ کمان کونسل کی سربراہ بھی ہیں، لہذا اُنکے لئے یہ اور بھی زیادہ ضروری بنتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں سیکورٹی اداروں کی طرف سے جا ری کارروائیوں کی ماہیت مشکوک ومشتبہ ٹھہر نے کے امکانات کو خارج کیا جا سکتا ۔ بلکہ اس سے سرکاری اداروں کی جوابدہی کا سسٹم، جو کسی بھی جمہوری نظام کے بنیادی عناصر میں شامل ہے، کمزور پڑنے کا شدید احتمال پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال مستقبل میں کسی بھی حلقے کے حق میں نہیں ہو سکتی۔