سرینگر// وادی میں مسلسل تیسرے روز اور خطہ چناب میںہڑتال سے زندگی کی رفتار تھم گئی جبکہ بڈگام اور گاندربل میں معمولی بندشیں دیکھنے کو ملی۔اس دوران ٹہاب پلوامہ میں شلنگ کے باعث ایک خاتون دم گھٹنے سے لقمہ اجل بن گئی۔اس دوران شہری ہلاکتوں کے خلاف شہر کے قمرواری،نٹی پورہ،رنگریٹ سمیت گاندربل ، چرار شریف ، آری پانتھن اورسوپور میں احتجاجی مظاہرے، سنگبازی و جوابی سنگبازی اورٹیر گیس شلنگ ہوئیں۔اس دوران کھاگ علاقے میں دوران شب آگ کی پراسرار واردات میں2ریستوران نذر آتش ہوئے۔
ہڑتال کا تیسرا روز
مزاحمتی خیمے کی طرف سے شہری ہلاکتوں کے خلاف دی گئی ہڑتال کال کے تیسرے روز بھی وادی کے جنوب و شمال میں ہمہ گیر ہڑتال سے عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی،جس کے دوران تعلیمی ادارے،نجی دفاتر اور مالیاتی ادارے مقفل رہیں جبکہ بازاروں اور تجارتی مراکز میں صحرائی مناظر دیکھنے کو ملے۔ سڑکوں پر ٹریفک کی آمدرفت بند رہی تاہم کئی جگہوں پر نجی ٹرانسپورٹ سڑکوں پر دوڑتا ہوا نظر آیا۔شہر خاص کے نوہٹہ ،خانیار ،مہاراج گنج ،صفاکدل پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں منگل کو کسی طرح کی پابندیاں نہیں تھیں ،تاہم یہاں ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر پولیس وفورسز کے اضافی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا ۔سول لائنز کے لال چوک ،ریگل چوک ،کوکر بازار ،آبی گذر ،کورٹ روڈ ،بڈشاہ چوک ،ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ ،مہاراجہ بازار ،بٹہ مالو اور دیگر اہم بازاروں میں تمام دکانیں اور کاروباری ادارے مقفل رہے اور ٹرانسپورٹ سروس معطل رہی۔ بڈگام اور گاندربل میں شہری ہلاکتوں پر ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر بندشیں عائد رہیں ۔درجنوں علاقوں کو خار دار تاروں سے سیل کردیا گیا جبکہ ان دونوں اضلاع میں بھی اضافی سیکرٹی فورسز اہلکاروں کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی ۔گا ندربل اور بڈ گام میں مارے گئے نوجوانوں کے گھروں میںماتمی جھنڈ ے اویزان تھے جس کے دوران یہ علاقے سوگ میں ڈوبے تھے۔ سرینگر کے مضافاتی علاقے رنگریٹ میں نوجوانوں کی ٹولیاں سڑکوں پر نمودار ہوئیں اور احتجاج کرتے ہوئے فورسز پر سنگبازی کی،جبکہ فورسز نے بھی جوابی سنگبازی کی اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے کچھ دیر تک کیلئے جاری رہا۔ پارم پورہ قمرواری سر ینگر میں سینکڑوں نوجوان یہاں جمع ہوئے اور انہوںنے وہاں سے گذ ر نے والی سی آ رپی ایف کی ایک گاڑی پر پتھرائو کیا۔ جواب میں فورسز اہلکاروںنے ہوا میں گولیاں چلائیںا ور بعد پو لیس کی ایک گاڑی نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے گولے داغے جس کے نتیجے میں مظا ہر ین منتشر ہو ئے ۔ نٹی پورہ سرینگر نوجوانوں نے سڑ کوں پر نکل کر احتجاج کیا ہے ۔احتجاجی نوجوانوں نے سڑکوں پر ٹائر جلائے اور رکاوٹیں کھڑا کرکے اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ پولیس اور سی آر پی ایف نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے اشک آور گولے داغے۔نامہ نگار ارشاد احمد کے مطابق بارسو میں پُر امن طور جلوس نکال کر آزادی اور اسلام کے حق میں نعرے بازی کی دن بھر عمر فاروق کے گھر میں تعزیت پُر سی کا سلسلہ جاری رہا ۔اس دوران سالورہ میں اکا دکا پتھراؤ کے واقعات رونما ہوئے ۔ادھر غلام نبی رینہ کے مطابق ہڑتال کال کے پیش نظر کلن، گنڈ ،گنہ ون میں بھی ہڑ تال کا اثر رہا جس کی وجہ سے کاروباری ادارے بند رہے جبکہ سڑکوں پر معمول کے مطابق چھوٹی گاڑیوں کی آمد رفت جاری رہی۔جنوبی قصبہ سوپور کے تکیہ پورہ میں ایک مسا فر بس زیر نمبرJKO19/357D پر پتھرائو کیا گیا جس کے نتیجے میں کنڈ یکٹر سمیت چار مسا فر زخمی ہو ئے ہیں ۔ نامہ نگار غلام محمد کے مطابق واقعہ کے بعد پولیس کی ایک ٹیم جائے واردات پر پہنچی جس دوران تمام زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔اس دوران رپورٹوں کے مطابق بڈگام کے کھاگ علاقے میں پیر اور منگل کی درمیانی شب کو پراسر آگ کی واردات میں2 ریستورنٹ خاکستر ہوئے۔ بڈگام کے چرار شریف میں اس وقت ھالات کشیدہ ہوئے جب مشتعل نوجوانون نے حکمران جماعت پی ڈی پی کے ضلع صدر یوتھ کی گاڑی پیر کے شام نذر آتش کی۔ عینی شاہدین کے مطابق مذکورہ پی ڈی پی لیڈر کی گاڑی زیر نمبرDL/3C4061 ہونڈا کو نامعلوم افراد نے بڑا تلاب کے نزدیک نذر آتش کیا۔اس دوران بیروہ کے آری پنتھن میں اس وقت حالات کشیدہ ہوئے جب2نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔مقامی لوگوں کے مطابق گرمائی ایجی ٹیشن کے دوران پیلٹ سے معذور ہوئے نوجوان فاروق احمد کے بڑے بھائی کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی جبکہ گرفتاریوں کے خلاف مقامی لوگوں نے احتجاج کیا جس کے جواب میں فورسز اور پولیس اہلکاروں نے ٹیر گیس کے گولے داغے۔آخری اطلاعات ملنے تک علاقے میں حالات کشیدہ تھے۔نمائندے کے مطابق پلامہ میں بھی فورسز اور نوجوانوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاع موصول ہوئین جبکہ فورسز نے مطاہرین کو منتشر کرنے کیلئے اشک آوار گولوں کا استعمال کیا۔ اسلام آباد۰ اننت ناگ) سے نامہ نگار ملک عبدلاسلام کے مطابق ضلع میں مکمل ہرتال کے دوران زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ضلع کی اہم شاہراہوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ،جس کے نتیجے میں دکانیں اوردیگر غیر سرکاری ادارے بند رہے جبکہ ٹرانسپورٹ بھی جزوی طور متاثر رہا۔ضلع کے سنگم،بجبہاڑہ،اننت ناگ،مٹن، سیر ہمدان،عیشمقام، سری گفوارہ،دیالگام اور آرونی سمیت دیگر علاقوں میں شہر ی ہلاکتوں کے خلاف غم وغصہ پایا گیا اورہڑتال کی گئی۔ کولگام ضلع میں کال کا خاصا اثر رہا۔کولگام،کھڈونی اور دیالگام سمیت دیگر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں ٹھپ رہیںاور ٹرانسپورٹ جزوی طور معطل رہا۔دریں اثناء بارہمولہ،کپوارہ،بڈگام ،بانڈی پورہ ، گاندربل ، پلوامہ اور شوپیان سے بھی اطلاعات ہیں کہ ان اضلاع میں مکمل ہڑتال کے نتیجے میں معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئیں۔شوکت ڈار کے مطابق شام کے وقت ٹہاب پلوامہ میں دوسرے روز بھی شدید ترین جھڑپیں ہوئیں جس کے دوران فورسز کی جانب سے بے تحاشا شلنگ ہوئی جس کے باعث دم گھٹنے سے ایک خاتون کی موت واقع ہوئی۔مقامی لوگوں کے مطابقشمیمہ اختر زوجہ نذیر احمد میر اپنے مکان کے صحن میں تھی جس کے دوران علاقے میں شلنگ سے شدید دھواں پھیل گیا اور وہ بیہوش ہوکر گر پڑی۔ قریب آدھے گھنٹے تک اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی گئی جس کے بعد اسے ضلع اسپتال پلوامہ لایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔میڈیکل سپر انٹنڈنٹ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ شمیمہ کو اسپتال لایا گیا لیکن وہ دم توڑ چکی تھی۔انکا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں بتاسکتے کہ اسکی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے یا موت کی وجہ کچھ اور ہے کیونکہ ایسا میڈیکل جانچ کرنے کے بعد ہی بتایا جاسکتا تھا۔ایس ایس پی پلوامہ رئیس بٹ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ علاقے میں واقعی جھڑپیں ہورہی تھیں اور مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے شلنگ بھی کی گئی۔انکا کہنا تھا کہ اغلب ہے کہ خاتون کی موت دم گھٹنے سے ہوسکتی ہے لیکن ایسا صرف میڈیکل جانچ کے بعد ہی کہا جاسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ خاتون کئی سال قبل تک کینسر کی بیماری میں بھی مبتلا رہی ہے۔دریں اثناء خطہ چناب کے تینوں اضلاع ، ڈوڈہ کشتواڑ اور رام بن کے متعدد قصبہ جات میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے طور پر مکمل بند رکھا گیا ۔ بند کی کال انجمن اسلامیہ اور مجلسِ شوریٰ کی طرف سے مشترکہ طور پر دی گئی تھی۔ نامہ نگاروں طاہر ندیم خان،توصیف بٹ اورایم ایم پرویز کے مطابق اس دوران کئی مقامات پر ہال ہی میں ہوئی شہری ہلاکتوں اور جموں میں روہنگیائی مسلمانوں پر ہونے والے حملوں پر حکومت کے خلاف احتجاج کیا گیا۔کشتواڑ قصبہ میں مکمل ہڑتال رہی اور دونوں طبقوں کی دکانیں وغیرہ بند رہیں۔ فرقہ وارانہ طور پر حساس اس قصبہ میںسیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے تاہم کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس موقعہ پر حکومت کی طرف سے سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے، حساس علاقوں میں بھاری تعداد میں پولیس، آرمڈ پولیس اور سی آر پی ایف تعینات کی گئی تھی۔ ضلع رام بن کی تحصیل کھڑی میں بھی کشمیر میں ہوئی ہلاکتوں کے خلاف بند رکھا گیا ، بیوپار منڈل کی کال پر تحصیل صدر مقام پر نہ صرف تجارتی ادارے بند رہے بلکہ تعلیمی اداروں، دفاتر اور دیگر مقامات پر بھی حاضری بہت کم رہی۔ بھدرواہ، کشتواڑ، ٹھاٹھری ، ڈوڈہ ، گندو اور کاہراہ کے علاوہ ضلع رام بن کے متعدد قصبہ جات میں بھی معمولات زندگی متاثر رہے۔