کشمیر کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جوں جوں کشیدگی میں اضافہ ہو تا جارہاہے وادی میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ فورسز اور عسکریت پسندوں کےدرمیان تصادم آرائیوں میں جانوں کا زیاں عمل میں آنا ناقابل فہم نہیں ، لیکن جس عنوان اور رفتار کے ساتھ شہری ہلاکتوں کے وقوع میں تواتر کےساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہCASOیعنی بستیوں کو گھیر کر تلاشی آپریشنوں کے دوران فورسز کو عوامی احتجاج کا سامنا کر نا پڑتا ہے، لیکن کیا اس احتجاجی عمل سے نمٹنے کےلئے فورسز کے پاس ہلاکتیں برپا کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں؟۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔اگر سیکورٹی ادارے ایسا سمجھتے ہیں ، جیسا کہ اکثر معاملات میں لگتا ہے تو یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ رواں برس کے گزرے ایام میں تیس کے قریب شہری ہلاکتیںپیش آئی ہیں، جو کسی بھی جمہوری نظام میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ برسراقتدار قیادت کی جانب سے بات بات پر یہ تاثر دینے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جاتا کہ شہری مزاحمت اور احتجاج سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کو احتیاط برتنے اور معیاری طریقۂ کار ا اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ، لیکن زمینی سطح پر اس کے برعکس کیوں ہو رہا ہے، یہ واعیان حکومت کےلئے غور و فکر کی بات ہے ، کیونکہ ریاست کے اندرایک جمہوری عمل سے وجود میں آئی منتخب سرکارموجو د ہے، جو عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہٰذا حکومت ہی اسکا جواب دینے کی مکلف ہے۔ دریں حالات پہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ بار بار کی سرکاری یقین دہانیوںکے باجود شہریوں کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آنا اس امر کی چغلی کھاتا ہے کہ برسراقتدار سیاسی قیادت حز م و احتیاط کی حکمت عملی کے اختیار سے عملاً محروم ہو تی جارہی ہے۔ اگر چہ وزیراعلیٰ سمیت پی ڈی پی قائدین ان شہری ہلاکتوں کےخلاف وقت وقت پر رنج و غم اور برہمی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو جمہوری اصولوں کے منافی قرار دیتے رہتے ہیں لیکن بہر حال زمینی سطح پر ان بیانات کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔2016کی ایجی ٹیشن کے دوران شہریوں پر طاقت کے بے محابہ استعمال اور شہری املاک کی توڑ پھوڑ کے بعد سیکورٹی اداروں کے ذمہ داروں نے واضح طور پر اس رجحان میں تبدیلی لانے کی یقین دہانیاں کرائی تھیں، لیکن عملاً ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس میں نہ صر ف اضافہ ہو تاجا رہا ہے بلکہ اس میں مرد و زن اور خود و وکلاں کا امتیا ز بھی مٹتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتہ برینٹی بٹہ پورہ میں ایسے ہی حالات میں ایک خاتون ،جو تین معصوم بچوں کی ماں تھی، اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بیرون ریاست میڈیا کے توسط ایسی کاروائیوں کو برحق ٹھہرا کر اس صورتحال کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک مہم شروع کی گئی ہے، جس کے اثرات یقینی طور پر فورسز کے طرز عمل پر پڑ رہے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر مسئلے کو ’’ دہشت گردی‘‘ سے جوڑنے کی مہم سے مخصوص کرنے کی پالیسی بھی کسی نہ کسی عنوان سے اس صورتحال میں معاون بنتی جاری ہے۔ حالانکہ ایسی کاروائیاں بین الاقوامی اصول و قواعدکے نہ صرف برعکس ہیں بلکہ انکی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے، عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی نہتے شہری کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی جواز نہیں بنتا اور اگر ایسا کیا جاتا ہےتو وہ قابل تعزیر ہے،لیکن ریاست میں افسپا کی آڑ میں یہ باب ہی بند کر دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہری ہلاکتوں کے بڑھتے رجحان پر سنجیدگی اور دیانت کے ساتھ غور وفکر کرکے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرے۔ خاص طور پر وزیراعلیٰ،جو متحدہ کمان کونسل کی چیئرمین ہیں،سیکورٹی اداروں پر یہ منفی رجحان اُجاگر کرنے میں پہل کرے ۔ شہری ہلاکتیں ڈی ایس پی محمد ایوب پنڈت کی ہو ں یا برینٹی بٹہ پورہ کی پروینہ بیگم کی، بہرحال کسی بھی جمہوری نظام میں قابل قبول نہیں ہو سکتیں اور ایسے رجحان کو تقویت دینے کی کوششیں ہر حال میں منفی نتائج پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔