شہرکاری کا بڑھتا رجحان! اسباب عیاں ،علاج ناگزیر

چونکہ اب شہر کاری کا رجحان بدستور بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور دیہات سے قصبوں اور شہر کی جانب ہجرت کا سلسلہ رکنے کا نام نہیںلے رہا ہے تو شہری کاری کے اس جاریہ رجحان کے تحت ہم یہ غلط تصور کر بیٹھے ہیں کہ شہر ہی ترقی کے انجن کو چلاتے ہیں۔تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کے پالیسی سازاور سیاسی ادارے بھی زیادہ سے زیادہ شہر بنانے یا پہلے سے قائم کئے گئے شہروں کو وسعت دینے کے جنون میں مبتلا ہیں جن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے اس حصے میں زیادہ تر خدمات اور سہولیات شہروں تک ہی محدودہیں اور پھر ہم یہ واویلا مچاتے ہیں کہ لوگ شہروں کی جانب نقل مکانی کررہے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ جب دیہات میں خدمات اور سہولیات میسر نہ ہوں تو لوگ قصبوں اور شہروں کی جانب رخ کریں گے کیونکہ وہاں معیار حیات اور خدمات و سہولیات دیہات کی نسبت بہتر ہوتی ہیں اور وہاں نہ صرف انہیں بچوں کو اچھی تعلیم نصیب ہوتی ہے بلکہ صحت کے حوالے سے بھی اچھی خدمات میسر ہوتی ہیں۔جموں و کشمیر میں ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سرینگر اور جموں کے دو بڑے شہر اب ہر طرف سے آبادی کے دباؤ کی وجہ سے پھٹ رہے ہیں اور دونوں شہروں کی وسعتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔سرینگر شہر کی سرحدیں اب جہاں گاندربل ،بانڈی پورہ ،بارہمولہ ،بڈگام اور پلوامہ تک پھیل چکی ہیں وہیں جموں شہر کی وسعتیں بھی کٹھوعہ ،سانبہ ،ادھم پور،ریاسی اور راجوری اضلاع تک پھیل چکی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، بنیادی سہولتوں اور سماجی نقل و حرکت کے ذرائع جیسی سہولیات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

 

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ والدین یہ سمجھتے ہوئے شہر منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیںکہ اس سے ان کے بچوں کیلئے کیریئر کے مواقع کھلیں گے۔جن لوگوں کو بار بار صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے وہ شہر میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ڈاکٹر اور ہسپتال آسانی سے دستیاب ہوں۔ اسی طرح لوگ محسوس کرتے ہیں کہ شہر میں زندگی زیادہ آرام دہ ہے۔یہ سب یک طرفہ ترقی کے انداز کا نتیجہ ہے جس میں چیزیں شہروں میں جمع ہوگئیں اور دیہاتوں کوحالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔اب یہ احساس جاگزیں ہو چکا ہے کہ جب تک دیہات کی ترقی نہیں ہوگی، ترقی کا مجموعی خواب ادھورا ہی رہے گا۔یہی احساس اب حکومت کو ایسی پالیسیاں بنا نے پر مجبورکررہا ہے جو دیہات پر مرکوز ہیں۔ گورننس، ترقی اور زندگی میں آسانی کے معاملے میں دیہات پر ایک خاص زور ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ دیہات میںمعیارحیات بہتر بنایاجائے تاکہ لوگوں کی شہروں اور قصبوں کی جانب نقل مکانی کے رجحان پر نہ صرف قابو پایاجاسکے بلکہ دیہات میں ہی تمام طرح کی معیاری سہولیات دستیاب کرکے روزگارکے وافر مواقع دستیاب رکھے جاسکیں جس کے نتیجہ میں دیہی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ملک کی ستر فیصدی آبادی دیہات میں آباد ہے اور اصل میں بھارت دیہات میں آباد ہے اورترقی کے مجموعی طرز عمل اور طرز زندگی کی تشکیل کے پیش نظر یہ بہت ضروری ہے کہ گاؤں ترقی یافتہ ہوںاور گاؤں دیہات میں سہولیات، ہرلحاظ سے شہر کے برابر ہوں۔

 

جدید ٹیکنالوجی نے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ گاؤں میں رہ کر دنیا سے جڑے رہ سکتے ہیں۔اگر ہمارے دیہات صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، رابطے، نظم و نسق اور دیگر سرکاری خدمات کے لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں تو یہ ہمارے شہروں کو ا س غیر ضروری دباؤ سے نجات دلا سکتا ہے جس کا انہیں اس وقت سامنا ہے۔اس کے نتیجہ میں نہ صرف ہم شہری آبادی کو بہتر خدمات فراہم کرسکتے ہیں بلکہ دیہاتی آبادی کو بھی اپنا جائز حصہ مل سکتا ہے اور ایک توازن قائم ہوسکتا ہے جس میں کوئی بھی شہری امتیاز یا استحصال کا الزام عائد نہیں کرسکتا ہے ۔اگر حقیقی معنوں میںدیہات کو سہولیات کے اعتبار سے شہروںاور قصبوں کے ہم پلہ بنانے کا بندو بست کیاجاتا ہے تو یہ دیہات اور شہروں میں رہنے والے لوگوں کے لئے ایک بہت بڑی راحت ہو سکتی ہے اور اس کا فائدہ دونوں دیہی و شہری آبادی کو ہوگا۔امید کی جاسکتی ہے کہ ارباب بست و کشاد ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاکر دیہات میںہی وہ ساری سہولیات دستیاب رکھیں گے جس کیلئے لوگ شہروںکا رخ کرتے ہیں اور جب ایسا ہوگا توتو دیہات کی ترقی یقینی بنے گی اور جب دیہات ترقی کریںگے تو اس کا مطلب ہے کہ پورا ملک ترقی کرے گا کیونکہ ہمارے ملک کا 70فیصد حصہ دیہات پر ہی مشتمل ہے۔