وہ سراپا حُسن تھی…!
وہ میر کی شاعری تھی…!
وہ جھیل ڈل کے کنارے بہار کی خوبصورت شام تھی…!
وہ گُلّاب تھی، جس پر اوس کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے…!
اُس کو دیکھ کر ابنِ آدم سارے غم بھول جاتا تھا۔
مہربان شہرِ ظلمات کی بیٹی تھی۔ والدین کے سایہ عاطفت سے وہ تب محروم ہوگئی جب وہ صرف چار سال کی ننھی سی بچی تھی۔ اب اُس کی پرورش اُس کا ماموں غُلہ خان کر رہا تھا، جو شہر کا ایک مشہور تاجر تھا۔ ماموں کے گھر میں مہربان نے کئی حسین بہاریں دیکھیں۔ اب جوان ہوچکی تھی۔ قدرت نے اُس کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اُس کے خیالات، جذبات، احساسات اور چاہتیں اب عروج کو پہنچ چکی تھیں۔ مہربان شباب کے ابتدائی دور سے گزر رہی تھی۔ اُس کے رخسار کشمیری عنبریں سیب کے مانند سرخ تھے۔ نظریں اُسکے چہرے پر ماند پڑ جاتی تھیں۔ اُس کے سُرخ پتلے ہونٹوں پر ہمیشہ ایک پر اسرار خاموشی رقصاں ہوتی تھی۔ داہنے رخسار پر موتی کی مانند چمکتا تلِ اُس کِتابِ حسن کو اور دلچسپ بناتا تھا۔ اُس کی خم دار نرم ریشمی زلفیں جیسے انسان کے ہوش اُڑاتی تھیں!
نہ جانے کتنے لوگ مہربان کو دِل دے بیٹھے تھے، لیکن وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز تھی۔ گوکہ مہربان ان پڑھ تھی مگر تھی بہت چالاک اور سیانی۔ اُس کے ساتھ بات کرتے وقت کبھی بھی اُس کے ناخواندہ ہونے کا گُمان نہیں ہوتا تھا۔
گُلہ خان اب مہربان کے لئے بہت ہی فکر مند رہتا تھا۔ شاید اسی لئے وہ ہمیشہ رات کو گھر میں ہی ٹھہرنے کو ترجیح دیتا تھا۔ مہربان جتنی حسین تھی، اُس سے زیادہ وہ با حیاء تھی۔ جب بھی کوئی اجنبی شخص اس کو دیکھتا تھا وہ شرم سے اندر ہی اندر برف کی طرح پگھل جاتی تھی۔
کیا معلوم کس قسمت والے کی تقدیر میں مہربان کا نام لکھا ہوگا! مہربان کوہِ نُور ہے… مہربان شاہکار پینٹنگ مونالیزا ہے… میں اور بھی کُچھ مہربان کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ کبھی اپنے تصورات کے کینواس پر پلکوں کے نرم برش سے مہربان کی حسین و جمیل تصویر کو اُبھارتا تھا۔ پھر دیر تک اُس تصویر کو اپنی آنکھوں میں سمولیتا تھا۔ میں اب تصّور کی دنیا میں آشائوں کے خدا کو تلاشتا تھا!
مہربان کی معصومیت نے سیاہی چوس کی طرح میرے احساسات کو چوس لیا تھا۔ ایک دن یوں ہوا کہ میرے دِل کی آنکھیں آنسوئوں سے چمک اُٹھیں۔ میں نے دیکھا کہ میری جھونپڑی کی خام دیواروں پر صرف مہربان کا عکس نمایاں ہے!
شہر ظُلمات کی آندھی نے کتنے خوبصورت سپنوں کے محل گرادیئے!؟ کتنے فلک بوس عزائم کو زمین بوس کردیا!؟ کتنے ادراک کے دریچوںُ کو وا ہونے سے روکا!؟ کتنے مضبوط ارادوں کو اُکھاڑ کر پھینک دیا!؟
وہی ہوا جو نہیں ہونا تھا۔ شہر ظُلمات میں اُس رات کچھ ظالم درندہ صفت لوگ درازہ کھٹکھٹائے بغیر ہی مہربان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ گُلہ خان دوسرے کمرے میں سویا ہوا تھا۔ اُس کے دونوں بیٹے اسلم اور شیرا شہر کے گودام میں ہی رات کو ٹھہرے تھے۔ اُن ظالم ہاتھوں نے اُس گُلاب کو اُجاڑ پھینکا جس پر سے ابھی اوس کے قطرے سوکھے بھی نہ تھے!
رات سیاہ ہوچکی تھی۔ مہربان کے ہونٹوں کا تبسم بُجھ گیا تھا۔ اُن بے درد ظالم ہاتھوں کی مٹھیوں میں چند پنکھڑیاں تھیں جن میں خوشبو نہ تھی۔ اِن میں صِرف مسلی آرزئوں کی چیخیں تھیں!۔
بہت عرصہ بیت گیا۔ ایک دن یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ مہربان کے خوابوں نے خودکشی کرلی!! گُلاب پر جمی اوس کی بوندیں اب پشیمان ہیں!
اُس شہر میں کوئی بھی فردِ بشر اس درد کو سینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ حادثوںکا شہر تھا۔ جہاں روز دلِ کو دہلانے والے حادثے رونما ہوتے تھے!۔ صرف ایک شخص تھا۔ تخلیق کار۔ جو عزم و حوصلہ اور اُمید کا دامن تھامے اپنے قلم سے فلسفئہ غم کی گھتیاں سلجھارہا تھا۔
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،بڈگام
موبائل نمبر؛9906534724