سرینگر// بیرون ریاستوں میں گرمی کی شدت بڑھ جانے کے ساتھ ہی وادی گلپوش میںغیر ریاستی گداگروںکی آمد بڑے پیمانے پر شروع ہوچکی ہے اور ان دنوں یہ بھکاری اسکولوں ، کالجوں ،بس اڑوںو صحت افزا مقامات کے علاوہ پیٹرول پمپوںپر وہ بھیک مانگتے نظر آ رہے ہیں۔بیرون ریاستوں میں گرمی کی شدت بڑھ جانے کے ساتھ اور وادی میں خوشگوار موسم کے ساتھ ہی بیرونی ریاستوں سے سینکڑوں بھکاری وارد کشمیر ہوچکے ہیں اور اس صورتحال کا سدباب کرنے کے لئے ریاستی سرکار اور متعلقہ حکام پر اسرار طور خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔سماج کے ذی شعور اور صاحب فکر لوگوں نے بتایا کہ ان غیر ریاستی مزدوروں اور بھکاریوں کے وارد کشمیر ہونے سے سماجی برائیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ غیر ریاستی بھکاری، لولے لنگڑے اسکولوں ، کالجوں ،بس اڈوں اور صحت افزا مقامات پر ڈھیرہ جمائے بیٹھے رہتے ہیں اوروہ عام لوگوں کے علاوہ سیاحوں و سیلانیوں کو زبردست تنگ و طلب کررہے ہیں اور اسطرح مہمان سیاح و سیلانی کی نظروں میں کشمیر کی عزت و وقار مٹی میں مل جاتی ہے۔صاحب فکر لوگوں کا کہنا ہے کہ حیرت انگیز طور پر مختلف بیماریوں میں مبتلا ان گدا گروں کوکشمیر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے اور انکی کوئی چیکنگ نہیں ہوتی۔ زرائع کے مطابق بیرون ریاستوں سے آنے والے لوگوں میں بھکاری اور لولے لنگڑوں کی تعداد اس قدر بڑھ رہی ہے کہ اب سرینگر میں ایسے معذوروں کے لئے جگہ کم پڑتی جارہی ہے اور جو لوگ ایسے جسمانی طور ناخیز افراد کو یہاں لیکر آجاتے ہیں اور ان کو اب وادی کے دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ شہر سرینگر میں جہاں کہیں بھی گاڑیوں کو سگنل پر کھڑا یہ بھکاری دیکھتے ہیں تو ان کی طرف دوڑ پڑھتے ہیں اور مجبورنا گاڑیاں چلانے والوں کو اپنی گاڑی کے شیشے بند کر دینے پڑھتے ہیں ، ایسے بھکاریوں کو شہر کے ہر گلی کوچے اور نوکٹ پر دیکھا جا سکتا ہے جہاں انہوں نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے ۔مقامی لوگوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ان گدا کھروں کی کشمیر آمد پر روک لگائی جائے کیونکہ ایسے افراد بغیر کویڈ ٹیسٹ کے کشمیر آرہے ہیں ۔