وہ انوکھا شہر تھا… اُس شہر کے ہر گلی کوچے اور فُٹ پاتھ پر چہرے ہی چہرے بِکتے تھے۔ قسم قسم کے چہرے دکانوں میں بڑے بڑے شلفوں پر سجے ہوئے تھے۔ شہر کے بڑے بازار میں دن بھر چہرے خریدنے والوں کا رش لگا رہتا تھا! خریدار اپنے من پسند کے چہرے خریدتے تھے۔ کوئی خریدار ایک، کوئی دو اور کوئی صاحب استطاعت سے تین، چار یا پانچ چہرے بھی خرید تھا… دراصل اُس شہر کا ہر باشندہ نقلی چہرہ لگا کر گھومتا پھرتا تھا۔
وہ شہر کچھ کربناک منظر پیش کررہا تھا اور گلیاں سُنسان تھیں، سڑکوں پر موت کا رقص جاری تھا۔ حق، سچ، حیا، امانت، فرض، اصول اور انسانیت جیسے الفاظ مہمل بن گئے تھے! لوگ ایک دوسرے کو ٹھگتے تھے۔شہرکے بچے اور جوان ذہنی انتشار میں مبتلا تھے۔!
ایک دن یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ چہروں کے دام آسمان چھولیں گا۔ دُکانداروں نے چہرے ڈمپ کردیئے، نتیجتاًچہروں کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوئی۔ لوگ اب منہ مانگے داموں چہرے خریدنے لگے۔لیکن وہ لوگ جو میری طرح اونچے دام دے کر چہرہ خریدنے کے اہل نہیں تھے، بے چارے مجبورو لاچار اور مبتلائے غم ہوگئے۔ ان کا جینا حرام ہوا۔ قدم قدم پہ اُن لوگوں کا استحصال ہونے لگا۔ شہر میں ہم جیسے غریب لوگوں کے لئے اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا ناممکن بن گیا۔ ایک ہی چہرے والے لوگ اُس شہر میں پریشان و پراگندہ ہوئے…!
آخر کار میں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ میرے پاس ایک اضافی چہرہ ضرو ہونا چاہئے۔ ‘داشتہ بکار آید‘‘۔ میں نے ایسا ہی کیا۔
پیسے اُدھار لے کر شہر کے مین چوک میں چہرہ خریدنے کے لئے چلا گیا… مین چوک کے بڑے بازار میں اپنا چہر۱ تلاشنے لگا، پر کہیں نہیں ملا… آخر کار تھک ہار کے میں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا… میں بے حال تھا۔ ایک راہ گیر کو مجھ پر ترس آیا۔ اُس نے مجھے اُس دُکان کا ایڈرس بتایا جہاں پہ میرا چہرہ دستیاب تھا۔ میں فوراً فُٹ پاتھ سے اُٹھا اور اُس دُکان کی طرف تیز تیز قدم بڑھائے… وہ دکان مین چوک کے نُکڑ پر تھی… اُس دکان پر سنہری الفاظ میں سائن بورڈ لگاتھا۔
"All types of faces are availabe here"
’یہاں ہر قسم کے چہرے دستیاب ہیں‘
’’مجھے چہرہ چاہئے‘‘ میں نے دُکاندار سے کہا۔
دکاندار نے مجھے تِرچھی نگاہوں سے دیکھا اور خاموش ہوا۔
’’جی!آپ خاموش کیوں ہوئے؟ میں نے آپ سے کچھ مانگا ہے!‘‘
’’جانتا ہوں…آپ کو چہرہ چاہئے‘‘ دُکاندار نے جواب دیا۔
’’پھر…!؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بات کچھ ایسی ہے…!؟‘‘
’’مطلب!؟‘‘ میں نے پھر تعجب سے پوچھا۔
’’مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میں آپ کو چہرہ نہیں دے سکتا ہوں‘‘۔
’’آخر کیوں!؟ میں بھی آپ کو من مانگے دام دے سکتا ہوں‘‘ ۔ میں نے دکاندار سے عاجزانہ انداز میں کہا۔
’’میرے بھائی! پیسوں کی بات نہیں ہے‘‘۔ دکاندار بولا۔
’’پھر کیا بات ہے!؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’دراصل بات کچھ اور ہے!‘‘
’’کیا…کیا ہوا!؟‘‘ میں نے تذبذب میں دکاندار سے پوچھا۔
’’ابھی کچھ دیر پہلے آپ کا ایک ہم شکل آپ کے سائز کا چہرہ مجھ سے خرید کے چلا گیا…!؟‘‘
دُکاندار کا جواب سن کر میری آنکھوں میں بے اختیار آنسوں اُمڈ آئے…میں پریشان ہوگیا۔
’’آپ کیوں اتنا پریشان ہوئے!؟‘‘ دکاندار نے تعجب سے پوچھا۔
’’جناب! مجھے اپنے سائز کا چہرہ ملنے کا غم نہیں ہے،غم صرف اس بات کا ہے کہ جس شخص نے بھی میرے سائز کا چہرہ خریدا ہوگا… اُس کے ہاتھوں کیا کچھ ہوگا… وہی ہوگا جو نہیں ہونا چاہئے۔! کتنے لوگ اُس کے ہاتھوں مغلوب، محکوم، مظلوم اور مجبور ہوئینگے!؟‘‘
میرا جواب سن کر دکاندار چُپ ہوا… میں لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ دکان سے باہر آیا … میں اُس چہر میں شکستہ و مجروح ہوا…!!!
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا نہامہ،9906534724