ڈاکٹر محمد عظیم الدین
جب شہد کی مکھی لاکھوں پھولوں کا رس (Nectar) چوستی ہے تو یہ ایک عام کیڑے کی طرح اسے فوراً ہضم نہیں کر لیتی،بلکہ ایک اضافی تھیلی جسے’’شہد کا معدہ‘‘ یا’’پوٹا‘‘ (Crop) کہتے ہیں،میں عارضی طور پر ذخیرہ کرتی ہے اورپھر مکھی کے لعاب میں موجود خامرے (Enzymes) اس پر اپنا ابتدائی کام شروع کر دیتے ہیں۔شہد کے معدے اور اصل معدےکے درمیان ایک انتہائی ذہین اور حساس ’’اسمارٹ دیوار ‘‘(Proventriculus) نصب ہے۔جو نہ صرف رس کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ اس میں سے پولن کے ذرات اور دیگر آلائشوں کو فلٹر بھی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مکھی کی اپنی بھوک مٹانے کے لیے صرف ضروری مقدار ہی اصل معدے میں جائے جبکہ باقی قیمتی رس شہد کی تیاری کے لیے محفوظ رہے۔یہ مکھیاں اس رس کو اپنے منہ میں لے کر تقریباً آدھے گھنٹے تک’’چباتی‘‘ہیں، جس کے دوران ان کے لعاب میں موجود مزید خامرے اس میں شامل ہو کر اسے کیمیائی طور پر توڑتے ہیں اور اس میں سے پانی کی مقدار کو کم کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ نیم تیار شدہ شہد مسدس خانوں میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے، جہاں مکھیاں اپنے پروں کو پنکھوں کی طرح استعمال کر کے ہوا دیتی ہیں تاکہ مزید پانی بخارات بن کر اُڑ جائے اور شہد گاڑھا ہو کر محفوظ ہو جائے۔اس طویل اور پیچیدہ عمل کو جاننے کے بعد، اب آئیے ایک بار پھر قرآن کے اس ایک لفظ’’بُطُونِہَا‘‘پر غور کریں۔ کیا اب اس کی گہرائی اور جامعیت مزید واضح نہیں ہو جاتی؟ اگرچہ اس کی بنیادی اور فوری تشریح، جیسا کہ کلاسیکی مفسرین نے بیان کی،’’بہت سی مکھیوں کے شکم‘‘ہی ہے (کیونکہ قرآن کا اولین مخاطب عرب معاشرہ تھا اور ان کے لیے یہی مشاہدہ کافی تھا)، لیکن اس لفظ میں جو معجزاتی وسعت ہے وہ انسانی کلام کی پہنچ سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا جامع لفظ منتخب کیا جو بیک وقت دو حقیقتوں کا احاطہ کرتا ہے: ایک ظاہری کثرت، جو ساتویں صدی کا ایک عام انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا کہ لاکھوں مکھیاں مل کر شہد تیار کرتی ہیں اور دوسری باطنی کثرت، جو اکیسویں صدی کا ایک سائنسدان اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی سے دیکھتا ہے کہ ایک ہی مکھی کے بطن میں شہد کی تیاری کے کئی مراحل، کئی حصے اور کئی خانے یعنی شکم ہیں۔
یہی قرآن کا اصل معجزہ ہے۔ اس کا مقصد سائنس کی نصابی کتاب بننا نہیں بلکہ ایسے پرحکمت الفاظ کا انتخاب کرنا ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوں۔ یہ کلام وقت کے ساتھ پرانا یا فرسودہ نہیں ہوتا بلکہ انسانی علم کی ترقی اس کے معانی میں نئی پرتیں روشن کرتی جاتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک پہاڑ کو دور سے دیکھیں تو اس کی ایک مجموعی شکل نظر آتی ہے، لیکن جتنا قریب جاتے ہیں، اس کی چٹانوں کی ساخت، اس میں اگنے والے پودے اور اس کے اندر بہنے والے چشمے آپ پر آشکار ہوتے جاتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ بھی اسی پہاڑ کی مانند ہیں، جن کا ہر نیا مطالعہ ایک نئی دریافت کا دروازہ کھولتا ہے۔
لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ اس چھوٹے انجینئر کی محنت کا پھل، یعنی شہد، خود اپنی ذات میں قدرت کا ایک کرشمہ اور قرآن کے بیان کی سچائی کا ایک ثبوت ہے۔ قرآن فرماتا ہے،’’اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔‘‘ یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک وسیع طبی حقیقت کا اعلان ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس مانتی ہے کہ شہد میں طاقتور اینٹی بیکٹیریل، اینٹی وائرل، اینٹی فنگل اور اینٹی انفلامیٹری خصوصیات موجود ہیں۔ اس میں موجود ہائیڈروجن پرآکسائیڈ، کم پی ایچ لیول اور دیگر اجزاء اسے ایک قدرتی جراثیم کش دوا بناتے ہیں۔ یہ زخموں کو تیزی سے بھرنے، جلن کے علاج، گلے کی خراش اور کھانسی میں آرام پہنچانے کے لیے صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔
قرآنی تعلیمات کی عملی تفسیر، یعنی سنتِ نبویؐ میں اس کی اہمیت اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے۔ صاحبِ خلقِ عظیم، ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نے شہد کی شفائی حیثیت کو اپنے ارشادات سے مزید مؤکد فرمایا۔ جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا،’’تم دو شفا دینے والی چیزوں کو لازم پکڑو،’’ شہد اور قرآن۔‘‘(سنن ابن ما جہ )۔ یہ قولِ مبارک اپنی جامعیت میں ایک سمندر سموئے ہوئے ہے، جس میں آپؐ نے انسانیت کی فلاح کے دو عظیم ترین سرچشموں کی نشاندہی فرمادی، ایک امراضِ جسمانی کے لیے اور دوسرا امراضِ روحانی، جیسے تکبر، حسد، مایوسی اور بے یقینی کے لیے۔ گویا اللہ نے ایک ننھے سے انجینئر کے ذریعے جسمانی شفا کا ایک مکمل دواخانہ مہیا فرمایا اور اپنے حبیبؐ کے واسطے سے اپنے کلام کے ذریعے روحانی شفا کا ایک ابدی نسخہ عطا فرمایا۔پس، شہد کی مکھی کی یہ داستان محض ایک کیڑے کی بائیولوجی کا بیان نہیں، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان محبت اور حکمت کے رشتے کی داستان ہے۔ یہ قدرت کے اس چھوٹے انجینئر کی کہانی ہے جو ہمیں نظم و ضبط، انتھک محنت، بے غرضی، اجتماعی بھلائی اور اپنی ذات کو ایک بڑے مقصد کے لیے فنا کر دینے کا درس دیتا ہے اور یہ قرآن کے اس بڑے معجزے کی کہانی ہے جو ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، اپنے اردگرد پھیلی نشانیوں پر غور کریں، سوال اٹھائیں، تحقیق کریں اور بالآخر اس عظیم ترین ڈیزائنر اور سب سے بڑے انجینئر کی معرفت حاصل کریں جس کے ایک حکم’’کُن‘‘(ہو جا) سے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام عجائبات وجود میں آئے۔
شہد کی مکھی ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے کہ سائنس اور ایمان ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ سائنس ہمیں اس چھوٹے انجینئر کے کام’ کیسے’ (How) سمجھا کر حیرت میں ڈالتی ہے، جبکہ قرآن اس کے پیچھے کارفرما کیوں (Why) کا شعور عطا کرکے ہماری روح کو منور کرتا ہے۔ شہد کا ہر سنہری، شیریں قطرہ اسی الٰہی حکمت کا ایک میٹھا، ٹھوس ثبوت ہے کہ خالق کی معمولی ترین مخلوق بھی، جب اس کے حکم کی تابع ہو جائے، تو پوری انسانیت کے لیے رحمت اور شفا کا ذریعہ بن سکتی ہے۔