اکٹر محمد عظیم الدین
کبھی ٹھہر کر آسمان کی وسعتوں کو دیکھا ہے؟ رات کے مخملیں آنچل میں ٹمٹماتے ان گنت ستاروں پر غور کیا ہے؟ یا شاید صبح کی پہلی کرن کے ساتھ کسی پھول کی پنکھڑی پر شبنم کے موتی کو چمکتے ہوئے پایا ہو؟ یہ کائنات ایک عظیم الشان، زندہ اور بولتی ہوئی کتاب ہے، جس کا ہر ورق، ہر سطر بلکہ ہر حرف ایک گہرے راز، ایک عمیق حکمت اور ایک ان کہی داستان سے لبریز ہے۔ یہ فطرت کی وہ کتاب ہے جسے پڑھنے کے لیے دل کی آنکھ اور غور و فکر کرنے والی عقل درکار ہوتی ہے۔ لیکن اس خاموش کتاب کے اسرار سے پردہ کون اٹھائے؟ اس کے پیچیدہ ڈیزائن کے پیچھے کارفرما عظیم ذہانت تک ہماری رہنمائی کون کرے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک اور کتاب، کتابِ ناطق یعنی قرآنِ حکیم، اپنا لازوال کردار ادا کرتی ہے۔ یہ محض مذہبی احکامات کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ خالقِ کائنات کا اپنی محبوب ترین مخلوق، انسان کے ساتھ ایک زندہ، متحرک اور محبت بھرا مکالمہ ہے۔ یہ ایک ایسا الٰہی گائیڈ ہے جو ہماری انگلی تھام کر ہمیں کائنات کی گیلری میں لے جاتا ہے اور سکھاتا ہے کہ فطرت کے فن پاروں کو کیسے سراہا جائے اور ان کے پیچھے موجود فنکار کی عظمت کو کیسے پہچانا جائے۔
اس الٰہی مکالمے کے سب سے دلکش ابواب میں سے ایک سورۃ النحل ہے، ایک ایسی سورت جس کا نام ہی ایک ننھی سی، بھنبھناتی ہوئی مخلوق کے نام پر رکھا گیا ہے، شہد کی مکھی۔ یہ انتخاب خود اپنی ذات میں ایک گہری حکمت رکھتا ہے۔ عربی میں اسے ’’النحل‘‘ کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس سورت میں گویا اس حقیر سی مخلوق کو ایک عظیم پیغام کا ذریعہ بناتا ہے، ایک ایسا پیغام جو صدیوں کے فاصلے طے کرتا ہوا آج بھی اتنا ہی تازہ اور متعلقہ ہے جتنا یہ چودہ سو سال پہلے تھا۔ آئیے، ان آیاتِ مبارکہ کے بحرِ معانی میں غوطہ زن ہوں اور دیکھیں کہ وحیِ الٰہی کے الفاظ کس طرح سائنس، تاریخ اور ایمان کے سنگم پر ایک لافانی معجزے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کو وحی (الہام) کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور اُن چھتریوں میں گھر بنا جو لوگ بلند کرتے ہیں۔ پھر ہر قسم کے پھلوں (اور پھولوں) کا رس چوس اور اپنے ربّ کے متعین کردہ راستوں پر تابع داری کے ساتھ چل۔ اُن کے شکموں سے ایک مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے ایک عظیم نشانی ہے۔‘‘(النَّحْل69-68)
یہاں پہنچ کر ایک لفظ ہمارے علمی سفر کا محور اور مرکز بن جاتا ہے،’’بُطُونِہَا‘‘ یعنی ’’اُن کے شکموں سے‘‘۔ بظاہر یہ ایک عام سا لفظ ہے، لیکن اس کی تہوں میں مباحث اور معانی کا ایک سمندر موجزن ہے۔ جدید دور کے بعض مسلم اسکالرز اور سائنسی فکر کے حاملین نے اس لفظ کو قرآن کے ایک شاندار سائنسی معجزے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن نے یہاں ’’پیٹ ‘‘کے لیے واحد کا صیغہ ’’بطن ‘‘استعمال نہیں کیا، بلکہ جمع کا صیغہ ’’بطون‘‘استعمال کیا ہے، جو اس سائنسی حقیقت کی طرف ایک واضح پیش خبری ہے کہ شہد کی مکھی ایک سے زائد معدوں یا ہاضماتی خانوں پر مشتمل ہوتی ہے، ایک ایسا راز جو خوردبین کی ایجاد سے قبل انسانی علم کی دسترس سے مکمل طور پر باہر تھا۔ یہ دعویٰ اپنی جگہ نہایت سنسنی خیز اور دلکش ہے اور یہ ہمیں سائنس اور ایمان کے ایک ایسے دلچسپ دوراہے پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں تحقیق اور تدبر لازم ہو جاتے ہیں۔
اس دعوے کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے، آئیے پہلے اس ’’چھوٹے انجینئر‘‘کی ورکشاپ کا ایک تفصیلی دورہ کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی کی زندگی ایک ناقابلِ یقین حد تک منظم اور پیچیدہ نظام کے تحت چلتی ہے۔ اس کی ہر حرکت، ہر عمل ایک طے شدہ پروگرام کا حصہ لگتا ہے۔ یہ ننھا سا انجینئر نہ صرف چھتّے (گھر) کی تعمیر میں جیومیٹری کے اصولوں کا ماہر ہے، اس کے بنائے گئے مسدس خانے (Hexagonal Cells) کم سے کم مواد استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ جگہ فراہم کرنے کا بہترین ریاضیاتی حل ہیں بلکہ یہ ہوابازی اور نیویگیشن کا بھی بے مثال ماہر ہے۔ ایک مکھی اپنے چھتے سے میلوں دور جا کر پھولوں کا رس تلاش کرتی ہے اور پھر سورج کو بطور قطب نما استعمال کرتے ہوئے ناقابلِ یقین درستی کے ساتھ اپنے گھر واپس پہنچ جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ واپس آ کر وہ ایک خاص قسم کے رقص (Waggle Dance) کے ذریعے اپنی ساتھی مکھیوں کو نہ صرف پھولوں کی سمت بلکہ ان کا فاصلہ اور معیار بھی بتا دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی پیچیدہ زبان ہے جسے سمجھ کر سائنسدان آج بھی حیرت میں گم ہیں۔
اب آتے ہیں اس کے داخلی نظام کی طرف جو شہد بنانے کی ایک مکمل فیکٹری ہے۔ جب شہد کی مکھی لاکھوں پھولوں کا رس (Nectar) چوستی ہے تو یہ ایک عام کیڑے کی طرح اسے فوراً ہضم نہیں کر لیتی۔ قدرت نے اسے اس کام کے لیے ایک خصوصی تحفہ دیاہے۔ایک اضافی تھیلی جسے’’شہد کا معدہ‘‘ یا’’پوٹا‘‘ (Crop) کہتے ہیں۔ یہ ایک حیاتیاتی ٹرانسپورٹ ٹینکر ہے جو شہد کے خام مال کو محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہاں رس بغیر ہضم ہوئے عارضی طور پر ذخیرہ ہوتا ہے اور مکھی کے لعاب میں موجود خامرے (Enzymes) اس پر اپنا ابتدائی کام شروع کر دیتے ہیں۔ مکھی کا اپنا اصل معدہ، جسے’’درمیانی آنت‘‘(Midgut) کہتے ہیں، اس کے بعد آتا ہے اور اس کا کام مکھی کی اپنی غذائی ضروریات (مثلاً پولن کو ہضم کرنا) کو پورا کرنا ہے۔ ان دونوں حصوں یعنی شہد کے معدے اور اصل معدےکے درمیان ایک انتہائی ذہین اور حساس ’’اسمارٹ دیوار ‘‘(Proventriculus) نصب ہے۔ یہ دیوار ایک ماہر ٹریفک کنٹرولر کی طرح کام کرتا ہے، یہ نہ صرف رس کے بہاؤ کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ اس میں سے پولن کے ذرات اور دیگر آلائشوں کو فلٹر بھی کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مکھی کی اپنی بھوک مٹانے کے لیے صرف ضروری مقدار ہی اصل معدے میں جائے جبکہ باقی قیمتی رس شہد کی تیاری کے لیے محفوظ رہے۔چھتے میں واپس پہنچ کر مکھی اس ’’شہد کے معدے‘‘میں موجود رس کو منہ کے ذریعے باہر نکال کر (regurgitation) دوسری نوجوان مکھیوں (House Bees) کے حوالے کر دیتی ہے۔ یہ مکھیاں اس رس کو اپنے منہ میں لے کر تقریباً آدھے گھنٹے تک’’چباتی‘‘ہیں، جس کے دوران ان کے لعاب میں موجود مزید خامرے اس میں شامل ہو کر اسے کیمیائی طور پر توڑتے ہیں اور اس میں سے پانی کی مقدار کو کم کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ نیم تیار شدہ شہد مسدس خانوں میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے، جہاں مکھیاں اپنے پروں کو پنکھوں کی طرح استعمال کر کے ہوا دیتی ہیں تاکہ مزید پانی بخارات بن کر اڑ جائے اور شہد گاڑھا ہو کر محفوظ ہو جائے۔(جاری)