نیوزی لینڈ میں گزشتہ جمعہ پیش آئے کربلا کا صدمہ اب بھی ہمارے دلوں میں درد کی ٹیسیں اٹھارہاہے ۔ اس روز دنیا نے دیکھا کہ اُمت اسلامیہ کس کس عنوان سے مظلومیت کی مار رکھارہی ہے اور اس روز ایک بے ضمیر ، بد دماغ سفیدفام خونی عیسائی دہشت گردنے مغرب کا یہ سارا بھانڈا چوراہے پر پھوڑا کہ کلمہ خوانوں کے تئیں اس کی خصوصی نفرت و عناد کی آگ صلیبی جنگ کی زخمی نفسیات کی بھٹی میں تپ رہی ہے ۔ کرائسٹ چرج اور لین وڈ کی مساجد میںخون خوار عیسائی قاتل نے جو کچھ کیا وہ الل ٹپ نہ ہو ابلکہ یہ ایک سوچا سمجھا مسلم بیزار عالمی مشن ہے جسے یہود ونصاریٰ، مشرکین ومنافقین کی تائیدو حمایت حاصل ہے ۔ یہ سیہ کارانہ مشن بالفعل وہی ہے جو کبھی ہٹلر کا من پسند مشغلہ رہا ، کبھی جارج بش اور اوبامہ نے اسے عراق وافغان اور شام میں اپنایا اور اب ٹرمپ کی سیاست اک لب لباب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مغرب کا یہ قاتلانہ گورکھ دھندا بلاناغہ جاری ہے بلکہ ا س میں روز اضافہ ہور ہاہے مگر سوا ل یہ ہےعالم اسلا م کب تک اس مشن کی شہ رگ کاٹنے کی بجائے ا س شیطانی مشن کے بھینٹ چڑھ کر چپ چاپ اپنی لاشیں گنتا رہے گا ؟ کب تک جنازوں کو کندھا دیتا رہےگا؟ کب تک یتیموں ، بیواؤں ، زخمیوں اور بے گھر ہوئے لٹے پٹے لو گوں کی فوج دیکھتارہے گا؟
مستقل میں اگر ناگفتہ بہ حالات کی یہی تصویر رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے جنازے اُٹھانے کے لئے کندھے بھی میسر نہ ہوں گے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کس طرح سے پوری مغربی دنیا اورا س کے مشرقی چیلے اسلام پر حملہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور کس پیمانے پربےقصور مسلمانوں کا خون ناحق مسلسل کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سلسلہ رُکنےوا لا نہیں کیونکہ مغرب کے مجازی خدا ہمارے خون کوخون نہیں بلکہ پانی سمجھ ر ہے ہیں اور انہیں اپنے مفادکی خدائی میں یقین ہے ، کسی فلسفہ ٔ جمہوریت یا انسانی حقوق میں نہیں ۔ اسی لئے فلسطین ، برما ، کشمیر ، عراق ، افغانستان اور یمن کی لہو رنگ زمینیں لاشوں سے بھر گئی ہیں۔ اسی کہانی کاتسلسل یہ بھی ہے کہ دنیا کے امن پسند ملک کہلانے والے نیوزی لینڈ کی دو مساجدمیں ایک ہفتہ قبل خود کار گن سے لیس بزدل صلیبی جاگھسااورنہتے نمازیوں پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کردی کہ چند ہی لمحوں میں پوری مسجد معصوموں کے خون سے نہلائی گئی۔حیوانیت کی حد یہ کہ اس پورے خونی کھیل کو سفاک قاتل نے فیس بک لائیو اور دیگر سوشل میڈیا ایپس پر دھڑلے سے اَپلوڈ کر کے ہزاروں لاکھوں افراد کی نظروں کے سامنے اپنی درندگی کا شرم ناک ثبوت پیش کیا۔ 50 سے زائد معصوم نمازیوں کی عمرا ور جنس دیکھے بغیر موت کے گھاٹ اتار نا کوئی کھیل تماشہ نہیں ۔ ا فسوس کہ ا س پورے خونی کھیل کی ابھی تک ساری دنیا تماشائی بنی ہے۔ البتہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم کو مرحبا کہ انہوں نے نہ صرف اس قتل وغارت کو بلا پس وپیش کے دہشت گردی جتلایا بلکہ قاتل کواپنے کیفرکردار تک پہنچاننے کا عزم دہرایا۔ا نہوں نے انسانیت کے درد کوہی نہ سہلایا ، بلکہ ا س المیہ کے موضوع پر ملکی پارلیمنٹ کا اجلاس بلاکر اس کا افتتاح ایک نورانی بزرگ کی تلاوت سے کرا ویا ۔اس سے ہمیںیہ دل خوش کن پیغام ملا کہ مغرب میں اب بھی کہیں کہیں دُکھی انسانیت کے لئے دردمنددل موجود ہیں اور دیار ِ مغرب میں اخلاقی حس ساری کی ساری پیوند خاک نہیں ہوئی ہے ۔
نیوزی لینڈ کےاس دہشت گردانہ قتل عام سے یہ راز بھی کھل گیا ہے کہ یہ سب کچھ ایک زہریلی سازش اور منصوبے کے تحت انجام دیا گیا ہے، اور اس کے پیچھے دشمنانِ اسلام کی کھلی جھنجلا ہٹ و بوکھلاہٹ کارفرما ہے ،جو خاص کربتاتی ہے کہ مغرب اسلام کی حقانیت سے کتنا خوف کھاتا ہے ۔ یہی خوف مغرب کے صلیبی فرقہ پرستوں کوایمان والوں سے نفرت کرنے اور انہیں شر پسندی کا نشانہ بنانے پر مجبور کروارہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ انسانیت کا ابتدائی سبق یعنی بقائے باہم کے آفاقی اصول کوبھول کر درندے اور بھیڑیئے بننے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ نائین الیون کے ماقبل اور مابعد ان کا مشترکہ مقصد یہ بنا ہے کہ اول مسلمانوں کو آپس میں لڑادو ، دوم دنیا بھر کے مسلمانوں کو ڈرانے دھمکانے کی دجالی سازشیں رچاتے جاؤ، خود ریاستی اور گروہی دہشت گردی کے ریکارڈ توڑتے جاؤ مگر اپنے جھوٹے میڈیااور گھٹیا سیاست کی زبان درازیاں کر کے الٹا مسلمانوں کو ہی دہشت گرد ٹھہراؤ تاکہ دنیا ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم مان کر چلے۔ دشمنان ِ حق شاید نہیں جانتے کہ اسلام نے اپنے ابتدائی ایام سے ہی اس طرح کی ریشہ دوانیاں اور سازشیں دیکھی ہیں، کر بلاؤں کا سامنا کیا ہے ، تکلیفوں اور کردار کشیوں کے وار سہے ہیںمگر ہر بار دشمن کے مقابلے میں حق وصداقت کا یہ الہیٰ نور مطلع انسانیت پر ستارہ ٔنور بن کر چمکتا رہا ۔ انشاءاللہ ہم نیوزی لینڈ میں دجال کی پیروی کرنے والے آسٹریلوی قاتل کے زہرناک اور سیاہ کار مشن کو بھی حسب سابق اپنے ایمان ویقین ، امن پسندی اور انسانیت نوازی کی خدائی قدروں پر عامل رہ کر نا کام کر دیں گے۔ جیسے بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار اس پر پہلا ہتھوڑا مارنے والا دعوتِ اسلام کے سامنے خود سپر دگی کر گیا، اسی کی مثال نیوزی لینڈ میں بنے گی بلکہ بننا شروع ہوگئی ہے ۔ بہر حال ذی شعودمسلمان نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں قتل عام کا’’ بدلہ‘‘ دجالی قوتوں سے ان دو محاذوں پر ضرورلیں گے: ایک دعوت وطہارت ا سلامی کے محاذ پر اور دوم خدمت خلق اللہ اور اسلام کے بتلائے ہوئے خلق عظیم کے محاذ پر ۔ ہم وہ ہیں جنہوں نے ہر دشمن کو اسلام کی برکت سے تعمیری اپروچ اپنا کردوست بنایا ، ہر منافق کا حال جان کر بھی اس کو عفو ودرگزر سے کام لیا ، ہم نے منگولوں ،تاتاریوں، چنگیزیوں اور بر بروں کو ہتھیار بلکہ اخلاق کریمانہ سے زیر کیا۔ اگر چہ یہ کام صبر آزما ہے مگر اس کو انجام دینے کے سوا ہم اپنی آخرت کو نہیں بچاسکتے۔ میدان حرب وضرب میں مسلمان پیچھے نہ رہے مگر آج کل کی دنیا میں امن وآشتی اور دعوت وخدمت کا ہتھیار سب زیادہ موثر ہے ۔ علامہ نے سچ فرمایا ؎
برمقام لا نیا ساید حیات
سُوئے الا می خرامد کائنات
مغرب ومشرق’’لا‘‘ کی نفی سے ’’الا‘‘ کے اثبات کی طرف لامحالہ آنا ہے ، یعنی اسلام کو مسجد میںیا کوہ و میدان میں شہادت کی قبائیں پہنانے کے باوجود دشمنان اسلام کواس دین خداوندی کے سمانے چار وناچار سر غرور جھکانا ہے ۔بے ہمارا خون نیوزی لینڈ جیسے المیوں سے کھولتا ہے، اور دنیا بھر کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں، بھلے زخم جسم پر کہیں بھی لگے لیکن درد ہر دل میں ہوتا ہے ،عزتیں کہیں بھی پامال کی جائیں، احساسِ زیاں خنجربن کر ہمارے دل میں اتر تا ہے ؎
اُبلتا ہے لہو سینو ںسے یا چشموں کے فوارے
کسی کے ہیں جگر گوشے کسی کے ہیں جگر پارے
وہاں ماؤں نے وارے کیسے کیسے آنکھ کے تارے
میرے الفاظ کیا ہر شعر کا مضمون جلتا ہے
میں جس دم سوچنے لگتی ہوں میرا خون جلتا ہے
اگر ہمیں اپنی قوم کی تقدیر بدلنی ہے تو اپنے اندر ایمانی حرارت پیدا کریں، ناحق کے خلاف شمشیر بے نیام بنیں ،اپنے حوصلوں کی پرواز اتنی اونچی رکھیں کہ زندگی کا آسمان صرف اچھائی کاشاہین بن جانا ہوجائے۔ یاد رکھیں کہ ایمان والوں نے ہمیشہ اپنی سنہری تاریخ قسم قسم کی اذیتیں سہہ کر اور قربانیاں دے دے کر رقم کی ہے ۔ نیوزی لینڈ میں نمازیوں کو جو شہادت عظمیٰ ملی ہے، سبحان اللہ، اُس پاک ذات کی قسم ایسی شہادت پر ہم ایسوں کی ہزاروں زندگیاں قربان ۔بارگاہ ِالہٰی میں سجدہ ریز ہوکر ذکر و تلاوت کے دوران سانسوں کا رُکنا خوش نصیبوں کا مقدر ہوتاہے جسے دیکھ فرشتے بھی رشک کر تے ہوںگے۔ ایسے شہدا کو لاکھوں، کروڑوں ،ا ربوں سلام!