سرینگر// فریڈم پارٹی کے سیکریٹری جنرل مولانا محمد عبداللہ طاری نے شہدائے جموں کو ان کی 70ویں برسی پر خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ 6نومبر 1947 کوجموں اور چناب خطے میں ایک منصوبہ بند سازش کے تحت لاکھوں مسلمانوں کو فرقہ پرست سیاست کی نذر کرکے ایک ایسے المیے کوجنم دیا گیا جس کی ٹیس آج بھی دلوں میں محسوس کی جارہی ہے ۔ مولانا طاری نے کہا کہ تقسیم ہند کے موقع پر بھارتی قیادت نے ایک طرف ریاست میںطاقت اور بندوق کے بل پر قبضہ جمالیا اور دوسری طرف فرقہ پرست قوتوں نے آبادیاتی شناخت میں رخنہ اندازی اور جموں میں مسلم شناخت کو مٹانے کے لئے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ،چادر اور چار دیواری کی حرمت پامال کی گئی اور املاک و جائداد کو لوٹ کر اس پر ناجائز قبضہ جمالیا۔مولانا طاری نے تاریخ کے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے کئی ریاستی لیڈروں نے اور ان کی تنظیم نے اس سلسلے میں سکوت اختیار کرکے بلوائیوں کو اس قتل عام کیلئے اس لئے خاموش حمایت فراہم کی کہ قتل کئے جارہے لوگوں نے اس لیڈر،اس کی جماعت اور اس کی رنگ بدلتی فریب پر مبنی سیاست کے لئے اسے حمایت نہ کی اور یہی وجہ ہے کہ اقتدار کے بھوکے اور سال2008اور سال2010 میںسینکڑوں معصوم بچوں کے قتل عام میں ملوث یہ فریبی جماعت آج تک اس سانحہ پر معنی خیزخاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔مولانا طاری نے شہدائے جموں کے لواحقین اور ان کے گھرانوںکی عظمت اور پامردگی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ وادی کے عوام جموں اور چناب اور پیر پنچال خطہ کے مسلمانوں کی قربانیوں کا احساس ہے اور انہیں یک و تنہا نہیں چھوڑیں گے اور رواں جدوجہد آزادی کیلئے ڈوڈہ، پونچھ کشتواڑ،راجوری،بھدرواہ،ریاسی،بانہال کے لوگوں کی خدمات کو آبِ زر سے لکھا جائے گا۔انھوں نے جموں سانحہ کے شہداء کے مشن کی تکمیل کے لئے عہد دہراتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ تاریخ میں کسی ہولوکاسٹ سے کم نہیں،کہ اس حادثہ کے شکار لوگوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا اور معصوم بچوں کو بھی نیزوں کی نوک پر رکھ کر شقاوت قلبی کا مظاہرہ کیا گیا۔ادھر مولانا طاری نے مزاحمتی قیادت کی جانب سے احتجاجی پروگرام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے عوام سے اس پر من و عن عمل کرنے کی اپیل کی ہے۔ادھر حریت (جے کے)کنوینر اور مسلم کانفرنس کے چیرمین شبیر احمد ڈار، محاز آزادی کے صدر محمد اقبال میر،انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیرمین محمد آحسن انتو، ینگ مینز لیگ کے چیرمین امتیاز احمد ریشی تحریک استقامت کے چیر مین غلام نبی وار نے اپنے ایک بیان میں ۶ نومبر ۱۹۴۷ کے شہداء جموں کو نم آنکھوں سے یاد کرتے ہوئے انہیںشاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔تاریخ کے اس بدنام ز مانہ قتل عام کے متاثرین کو یاد کرتے ہوئے قائدین نے کہا کہ جب دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلم مملکت کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو انسانیت کے دشمنوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلماناں جموں کو پاکستان بھیجنے کے بہانے ہزاروں گاڈیوں میں بھر کر سرحدوں کی طرف پہنچایا جہاں ہندو انتہا پسند اور ڈوگرہ فوج کے قاتل ٹولے ان بے سرو سامانوں پر درندوں کے طرح ٹوٹ پڑے اور دو دنوں میں ساڈھے تین لاکھ کے قریب مسلمان مردوں ۔خواتین ،بچوں اور بزرگوں کو شہید کیا ۔یہ قتل عام دراصل جموں کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کرکے ہندو اکثریت میں تبدیل کرنا تھا اور یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند طریقے سے عمل میں لایا گیا۔یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے تھے جو خود کو گاندھی جی کے پیروکار کہ رہے تھے جنہوں نے عدم تشدد کا فاسفہ اپنے لوگوں کو سمجھا کر اس پہ چلنے کیلئے کہا تھا لیکن یہ قاتل اس کا مذاق بنا کر اپنا اصلی روپ دکھا رہے تھے ۔اس قتل عام کے زخم اتنے گہرے ہیں جو کبھی بھی بھلائیے نہیں جاسکتے ہیں آج بھی اس دل ہلادینے والے واقعے کی یاد اسی طرح تازہ ہے جیسی ۷۰ سال پہلے تھی آج ایک بار پھر جموں میں ویسے ہی حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے ۷۰ سال پہلے تھی کیونکہ آج ایک بار پھر وہ لوگ اپنے مسلم مخالف ایجنڈے پر کام کرنے کی تیاریوں میں لگ گئے ہیں آج کے کابینہ وزیر ۶ نومبر کے واقعات یاد دلانے کی بات دھمکی آمیز لہجے میں کہ رہے ہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ مسئلہ جموں کشمیر کو مستقل بنیادوں اور عوامی خواہشات کے عین مطابق حل کر کے ۶ نومبر کے واقعات کو دہرانے سے بچایا جاسکے۔ اس دوران مسلم پولٹیکل لیگ چیرمین فاروق احمد توحیدی نے شہداء جموں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۴۷ ء میں تقسیم ہند کے موقعہ پر جہاں بھارت میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، وہی ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اکتوبر اور،نومبر کے مہنیوں میں خصوصی طور پر صوبہ جموں کے اندر ڈوگرہ پولیس،آر ایس ایس کارکنوں،سکھ جتھوںاور انتہاء پسند ہندئوں کے ہاتھوں وسیع پیمانے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ،اُن کی خواتین کی عزت و عصمت کو پامال کیا گیا۔