مقصوداحمدضیائی
گردش ماہ و سال کے عمل سے ایک بار پھر محرم الحرام کا مہینہ وارد ہو چکا ہے۔ یہ اسلام میں ایک تقدس مآب مہینہ ہے جس میں انبیاء کرام علیہم السلام پر حق جل مجدہ کی بیشمار نوازشیں اور کرم فرمائیاں ہوئیں عاشورہ محرم کو البتہ حادثہ کربلا کی نسبت سے تاریخ اسلام میں اپنی ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے عام قاعدہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انسانی عظمت و شہرت کے ساتھ حقیقت کا توازن بہت کم قائم رہ سکا ہے یہ بھی ایک عجیب و غریب امر ہے کہ جو شخصیتیں عظمت وتقدس اور قبول و شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں دنیا عموماً تاریخ سے زیادہ افسانہ اور تخیل کے اندر انہیں ڈھونڈنا چاہتی ہے اس لئے فلسفہ تاریخ کے بانی اول ابن خلدون کو یہ قاعدہ بنانا پڑا کہ جو واقعہ دنیا میں جس قدر زیادہ مقبول و مشہور ہوگا اتنی ہی افسانہ طرازی اسے اپنے اپنے حصار تخیل میں لے لے گی ایک مغربی شاعر گوئٹے نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایہ میں بیان کی ہے وہ کہتا ہے انسانی عظمت کی حقیقت کی انتہاء یہ ہے کہ افسانہ بن جائے تاریخ میں حضرت حسینؓ کی شخصیت بڑی اہمیت رکھتی ہے خلفائے راشدین المہدین کے عہد زریں کے بعدجس واقعہ نے اسلام کی دینی سیاسی اور اجتماعی تاریخ پرسب سے زیادہ اثر ڈالا وہ ان کی شہادت کا عظیم حادثہ ہے یہ بات بغیر کسی مبالغہ کے کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پرنسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے جس قدر اس حادثہ پر بہے ہیں پندرہ سو برس کے اندر پندرہ سومحرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا واویلا کرتا رہا اشک بہاتا رہا سیدنا حسینؓ اور خانوادہ نبوت کی بیش قیمت قربانی کی صدائے بازگشت ہے آپ کے جسم نازنین سے دشت کربلا کی سنگ دل زمین نے لہو کا آخری قطرہ نچوڑ کر خود کو سیراب کیا اس موقع پر چشم فلک نے بہ نگاہ حزن و حسرت دیکھا یہاں کس طرح ایک بے سرو سامان اور نہتے قافلہ حق کا معطر و مطہر خون بہایا گیا اس پاک خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے دنیا اشک ہائے رنج و غم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے مگر پھر بھی اس کا غم غلط ہونے کو تیار ہے اور نہ اس کی ہیں ختم ہونے پر آمادہ ہے اور کیوں نہ ہو آخر یہ نواسہ رسول صلعم ہیں جنہوں نے اسلام کی سربلندی کی نیت سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنا سب کچھ اپنے نانا جان کے دین حق کا پرچم اعلی و بالا رکھنے کے لیے خوشی خوشی نچھاور کر دیا بایں ہمہ یہ بات بھی ایک چیستان ہے کہ تاریخ کا اتنا مشہور اور عظیم تاثیر رکھنے والا حادثہ بھی دانستہ و نادانستہ کہیں نہ کہیں تاریخ کے بجائے داستان گوئیوں کی صورت میں پیش کیا جا چکا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ دل کو کباب کرنے والا حادثہ کربلا تاریخ اسلام میں ایک اہم ترین حادثہ ہے جس نے تاریخ کے سفر کو اشکبار کرکے چھوڑا مگر یہ عظیم الشان قربانی امت مسلمہ کے لیے عبرتوں اور نصائح کا ایک وسیع و عریض دفتر اپنے اندر رکھتا ہے فی الواقع دنیا کی تاریخ کا ہر ورق اپنے اندر ابن آدم کے لیے عبرتوں اور نصیحتوں کا مرقع اور آئینہ ہے اس کی مثالیں ہمیں قرآن پاک میں انبیاء رسل کے قصص کی صورت میں ملتی ہیں اللہ تعالی نے پند و وعظت کے لیے جہاں تاریخ کا حوالہ دیا وہاں تاریخ کا نفس مضمون کسی قصہ یا فسانہ کی حیثیت سے مدون و مرتب شکل میں پیش نہیں کیا بلکہ صرف حقائق کے سمندر کی زیریں لہروں کی تہہ میں چھپے لعل و جواہر کو عبرت کے لیے ڈھونڈ نکالنے کی شا و کلید انسان کے ہاتھ میں دی اس میں یہی مترشح ہوتا ہے کہ تاریخ خود اپنی ذات میں کوئی مقصد نہیں بلکہ وہ نتائج ہیں جو تاریخ اقوام اور ان میں پیش آنے والے واقعات سے حاصل ہوتے ہیں اس لیے قرآن پاک نے از زمانہ رفتہ کے تعلق سے جستہ جستہ قصص پیش کر کے ان سے عبرتیں حاصل کرنے کا اشارہ دیا سیدنا حسینؓ کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اہم حادثہ ہے اس میں ایک طرف ظلم و جور سنگ دلی اور محسن کشی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات رقصاں نظر آتے ہیں کہ دل پژ مردہ اور جگر پاش پاش ہو جاتا ہے اور دوسری طرف آل اطہار رحمت دو عالم کے چشم و چراغ اور ان کے ستر بہتر مصاحبین کی چھوٹی سی جماعت ہے جو وقت کے باطل کے مقابلہ میں ایمان کے بل بوتے پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد اور قربانی و جانثاری کہ ایسے محیرالعقول واقعات کا صدور کرتے ہیں کہ آج بھی تاریخ محو حیرت ہے کہ یہ کس ناقابل تسخیر قوت نے انہیں ایک منظم فوج کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا کس نے انہیں حق کے لیے بہادرانہ طور عزیز جانیں کھپانے کی ہمت دی کس نے مایوسی کے عالم میں بھی امید کا دامن تھامے رکھنے کی ادا انہیں سکھائی اور بالآخر انہیں شہادت کی خونین قبا اس میں اپنی ہمیشگی کی زندگی عطا ہوئی اور ان کے مد مقابل کے لشکر کی قسمت میں دائمی حرماں نصیبی اور ذلت و خواری آئی بے شک تاریخ اسلام نے یہ دلدوز مناظر طائف غزوہ بدر اور جنگ احد میں سیدالشہداء سیدنا حمزہؓ سمیت متعدد صحابہ کی شہادتیں اور خود پیغمبراسلام جناب محمد رسولﷺ کے دندان مبارک شہید ہونے کی سرگزشت ایک دوسری شکل میں دیکھ لیے تھے اور یہ انہیں کا تسلسل ہے کہ میدان کربلا میں قوت ایمانی اور جاں سپاری کے ایسی جیتی جاگتی تصویریں ابھر آئیں کہ جن کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے بہرطور اس تصویر کے دو رخ ہیں جن میں آنے والی نسلوں کے لیے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں ۶۱ ہجری جب یہ حادثہ شہادت پیش آیا اس وقت سے لے کر آج تک اس پر مفصل کتب اور رسائل ہر زبان میں لکھے گئے ہیں جن میں یہ حادثات ایک دریائے خون کی طرح چشم تصور کے سامنے رقصاں ہوتے ہیں مگر ان کو پڑھنے لکھنے اور سننے کے لیے جگر تھام کر بیٹھنا پڑتا ہے کربلا کے میدان میں جگر گوشہ رسول سید شباب اہل الجنۃ حضرت حسینؓ کی درد ناک و مظلومانہ شہادت پر تو زمیں روئی ملائکہ روئے آسمان تھرایا پہاڑ ہل گئے اور آج بھی حساس انسان اس کا درد محسوس نہ کرے یہ ہو ہی نہیں سکتا شہید کربلا سیدنا حسینؓ کی روح مقدس دردو غم کا رسمی یا روایتی مظاہرہ کرنے والوں کے بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو آپ کے دل مبارک میں اسلام کےلیے درد میں شریک اور اس اعلی و ارفع مقصد میں ہم قدم ہوں جن کی بالاتری کے لیے معرکہ کربلا برپا ہوا سیدنا حسینؓ کی روداد درد و غم پر غور کی جئیے تو صاف نظر آئے گا کہ آپ اس مقصد کی حرمت کے لیے کوفہ جانے کے لیے مجبور ہوئے اور اسی ایک مقصد کے لیے آپ نے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت اور جان نثار ساتھیوں کوقربان ہوتے دیکھا اور خود بھی اس پر قربان ہوگئے حادثہ شہادت کو اول سے آخر تک دیکھئے حضرت حسینؓ کے خطوط اور خطبات کو غور سے پڑھئیے تو یہ معلوم ہوگا کہ سیدنا حسینؓ کا مقصد یہ تھا * کتاب و سنت کو صحیح طور پر رواج دینا * اسلام کے نظام عدل کو از سر نو قائم کرنا * اسلام میں خلافت نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلے میں مسلسل جہاد کرنا * حق کے مقابلے میں زور و زر کی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا *حق کے لیے اپنا جان و مال اور اولاد سب قربان کر دینا * خوف و ہراس اور مصیبت و مشقت سے نہ گھبرانا اور ہر وقت رب کریم کو یاد رکھنا اسی پر توکل اور ہر حال میں رب کریم کا شکر ادا کرنا۔ ہم میں کوئی ہے جو جگر گوشہ رسولؐ مظلوم شہید کربلا کی اس پکار کو سُنے اور ان کے مشن کو ان کے نقش قدم پر انجام دینے کے لیے تیار ہو، ان کے اخلاق فاضلہ اور اعمال حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد بلکہ لب لباب ٹھہرایا ؟ اپنی جگہ ان دو سوالوں پر غور کر کے دل کی دنیا سے سچا جواب پاکر حادثہ کربلا کو یاد کیجئے تو اس کا کوئی معنی و مطلب ہے۔ الحاصل! اہل اسلام آج بھی کرب و بلا میں ہیں بالخصوص اہل غزہ پر اسرائیلی برسوں سے جاری جارحیت و بربریت نے انسانیت کو شرمسار کر رکھا ہے۔خدا کی اس زمیں کا ذرہ ذرہ ایک اعتبار سے خون آلود ہے انسانیت کراہ رہی ہے اور شرافت خاک و خون میں غلطاں ہے، اس قسم کی صورت حال میں حادثہ کربلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جیسے حضرت حسینؓ عملاً یہ ثابت کر گئے کہ ظلم کے قلعے اس طرح مسمار کرو کہ جس طرح میں نے کئے۔ سیدنا امام حسینؓ کی عزیمت و جرأت اور شجاعتِ قلب کا سب سے بڑا ظہور اسی حادثہ سے ہوا ہے کہ جس چیز کو آپؓ حق سمجھ چکے تھے۔ اس پر جان دینی گوارہ کی مگر زور زبردستی کے سامنے سر جھکانا گوارہ نہ کیا اور باوجود بے یارو مددگار ہونے کے مقابلے میں آگئے اور شہادت عظمی کے مقام پر جا پہنچے۔
بقول شخصے
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی