اسلامی اور ہجری کلینڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام داخل ہوتے ہی منبر و محراب تذکرہ ٔکربلا سے گونج اٹھتے ہیں ۔ تاریخ کے واقعات کو دہرانے اور ان کی یاد تازہ کرنے کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ واقعات کے اصل اور بنیادی فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ، مکمل آگہی حاصل کر لی جائے کہ ایسے واقعات رونماکیوں ہوئے۔ دس محرم الحرام ہمیں یہ دعوت فکر دیتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن اعلی وارفع دینی مقاصد کی تکمیل کیلئے قربان ہوئے، کیا ہم دین پر آنے والے ان مواقع اور مراحل پر پسینہ کا ایک قطرہ بہانے کیلئے بھی تیار ہیں کہ جن کی وجہ سے ہی معرکہ کربلا برپا ہوا۔یہ دن ہم سے خود احتسابی کا تقاضا بھی کر رہا ہے کہ ہم اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ ہم حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دے رہے ہیں یا اس ملوکی نظام کو بھر پور طریقے سے تقویت بخش رہے ہیں جس کے خلاف نواسہ رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عظیم قربانی پیش کی ۔اگر ہم اس غلط نظام کے حمایت یافتہ ہیں تو پھرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورہمارے مابین کتنے فاصلے،کتنی گہری خلیج ہے اور کیا پھر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غم میں نڈھال ہونے کی ہمارے پاس کوئی اخلاقی جوازیت ہے؟
مختلف زمانوں، مواقع اور مراحل پر اسلام تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچا ۔ اس دوران ہمیشہ فرزندان اسلام نے جان کی بازی لگا کر اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر اور اپنا سب کچھ حق پر نچھاورکر کے اسلام کی روح ، اس کی عظمت اور اس کی صداقت کا تحفظ کیا۔ ابتدا ئے اسلام میں جب کہ مملکت اسلامی کی ابھی بنیاد ہی رکھی جا رہی تھی ، اسلام پر ایک سخت ترین اور مشکل مرحلہ آیا جب مشرکین مکہ نے مدینہ پر چڑھائی کر نے کی ناپاک کوشش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانثارصحابہ ؓ ( جن کے بے بدل احسانات تلے امت کا رُواں رُواں دباہے ) کو اسلامی مملکت قائم کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کی بھر پور جسارت کی ۔ اس دوران وسائل حرب و ضرب کے اعتبار سے قلت کے باوجود حق کے داعی فرزندان اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ترین قیادت میں میدان بدر میں حق کے غلبہ کے لئے ذوق وشوق سے پہنچے۔یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جب باطل کے پرستاروں نے اسلام کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ پیدا کیا تھا۔ حق و صداقت کے محافظین جو تعداد کے اعتبار سے انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، نے خدائے لا شریک پر غیر متزلزل ایمان اور اعتماد رکھتے ہوئے اپنے خون سے ارض مقدس پر حق و صداقت کا منشور لکھ دیا اور اپنی متاع عزیز قربان کرتے ہوئے اپنے لہو سے شجر اسلام کو حیات جاویداں بخشی۔ یہ جانبازان اسلام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر اسلام کے پرچم کو ابد تک لہرا گئے اور دشمنان اسلام جو عددی ،سامان حرب و ضرب اوردیگر وسائل کے اعتبار سے قوی اور طاقت ور تھے کو ایسی شکست دی جسے قیامت کی صبح تک دنیا یاد رکھے گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کی سربراہی میں اسلامی ریاست کا جو نظام 40؍ سال تک چلتا رہا،اس صالح نظامِ مملکت کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پورے یقین کے ساتھ یہ تسلیم کیا جاتا رہا اور عمل اس عقیدے کی کسوٹی پر پورا اتر رہا تھا کہ مملکت خدا کی ہے اور اس مملکت میں رہنے بسنے والے لوگ خدا کی رعیت ہیںاور نظام حکومت چلانے والے اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہیں اور یہ کہ رعیت حکمرانوں کے غلام نہیں بلکہ رعیت اور حکمران سب خدا کے غلام ہیں۔خلفائے راشدین المھدیین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جس شورائی نظام اور جس عظیم مشاورت کے تحت اسلامی مملکت کی باگ و ڈور سنبھالی اور جس خالص اور کھرے انداز میں مملکت اسلامیہ کو چلانے کا حق ادا کیا، آج تک دنیا اس کی مثال پیش نہیں کر سکی اور تین امرا ء المومنین فاروق اعظمؓ امیر المومنین سید نا عمر ابن الخطابؓ ،جامع القرآن امیر المومنین سیدنا عثمان ذالنورینؓ ، اسد اللہ الغالب امیر المومنین سیدنا علی ابن طالب ؓیکے بعد دیگر خلافت کی محافظت پر اپنی مقدس جانیں نچھاور فرما کر شہادت کے رتبہ عظیم پر فائز ہوئے لیکن خلافت کا مقدس اور پاکیزہ دور اختتام کو جا پہنچا تواُفق ِاسلام پر فسق و فجور کی گھٹائیں منڈلانے لگیں ۔ شام و عراق اور کوفہ سے ہوتی ہوئی یہ گھٹائیں حرمین شریفین کے مطلعٔ انوار پر بھی چھا جانا چاہتی تھیں، تاریخ اسلامی کا مطالعہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ یزید کی تخت نشینی سے جس خرابی کی بنیاد پڑ گئی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج ومنہج اور اس کے مقاصد کی تبدیلی تھی ،اسی تحویل قبلہ کے بھیانک نتائج آج تک ملت اسلامیہ کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔یزید کی ولی عہدی سے خلافت اسلامیہ کی روح کو پامال کرتے ہوئے راہ راست پر چلنے والی گاڑی کارخ جان بوجھ کر موڑ دیا گیا اور اسے ملوکیت یعنی بادشاہت کی راہ پر ڈال دیا گیا۔بادشاہت کے طریقہ کار اور ا س سے پیدا ہونے والی خرابیوں اوربد اعمالیوں کی تاریکیوں نے اسلام کے درخشاں اصولوں اور تابناک کردار کو اپنی آلودگیوں میں چھپا لینے کی ساز ش کی لیکن اسلام کی صداقت آفرینی کی شعاعوں نے حیل و کذب کی تاریکیوں کی سیاہ چادر کو پارہ پارہ کر دیا اور عظمت اسلام کیلئے دی جانے والی قربانیوں نے اسلام کی حقانیت کو تا ابد زندہ رکھا۔
61؍ ہجری میں اسلام کے شورائی نظام کے برعکس اور اسے کسی خاطر میں لائے بغیر یزیدتخت سلطنت پر بیٹھا اور اس نے تاریخ اسلام میں ملوکیت کی بنیاد رکھی اور دیدہ و دانستہ تاریخ اسلام کے ساتھ ناروا سلوک کیا جس سے تب تک کی اسلامی مملکت نا واقف تھی ۔ خلافت کے طریقہ کار کے خاتمے اور ملوکیت کی بنیاد رکھنے کے فوراً بعد یزید نے پوری چال بازی کے ساتھ نواسہ رسول سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دست ِتعاون چاہا اور اس امر کے پیچھے بہت ساری سازشیں کار فرما تھیں ۔ ان سازشوں میں سب سے بڑی سازش یہ ہو رہی تھی کہ اسلام میں ملوکیت جو کئی اعتبار سے ضلالت سے کم نہیں ،کو اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نام سے صواب و حق نما ٹھہرایا جائے اور اس پرخانوادہ رسول سے سند جواز حاصل کیا جائے تا کہ یہ سند حاصل ہونے کے بعد کہیں سے بھی ملوکیت کے خلاف آواز بلند نہ ہو سکے اور اگر کوئی صدائے احتجاج بلند کرنے کی کوشش کرتا بھی تو اسے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا کہ ملوکیت پر نواسہ رسول سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مہر تصدیق ثبت ہے ، لیکن جونہی یزید نے ملوکیت پر سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید و توثیق حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تو حسب توقع سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر قطعاً اور ہر گز تیار اور آمادہ نہیں ہوئے اور یہ کیسے ممکن بھی تھا کہ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی رائے اور دست تعاون اس قبیح عمل پر دیتے جس سے امت کو اس دھوکہ عظیم میں مبتلا کیا جا رہا ہو کہ اسلام میں موروثی حکومت کو بھی کوئی مقام و مرتبہ حاصل ہے اور یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا تھا کہ اسلام کے خلافت کے نظام شوریٰ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کیا جا رہا ہو اور اس کے دفنانے میں خاکم بدہن سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات مبارک بھی شامل ہوتی؟سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، کیسے بادشاہت کے قیام پر خاموشی اختیار کرتے ؟ یہ اس عظیم بنوی تربیت کے قواعد اور اصولوں کے سراسر خلاف تھا جس میں سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پرورش پائی تھی۔ اس صورت حال میں سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ بچا تھا کہ وہ ملوکیت اور موروثی حکومت کے خلاف اعلان جہاد بلند کرکے خلافت راشدہ کا احیاء نو کریں۔ اس دوران جب اہل کوفہ نے بھی اپنی طرف سے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بھر پور اعتماد دلایا کہ ملوکیت کے خلاف ان کی جدوجہد میں وہ برابر کے شریک رہیں گے اور ان کا بھر پور ساتھ دیں گے تو ان کی کاوشوں کو مزید تقویت ملی۔چنانچہ کوفیوں کے ان وعدوں اور مواعید پر سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بادشاہی نظام کو للکارتے ہوئے سب سے پہلے مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ جاکر وہاں زمینی حالات کو جانچنے کے لئے روانہ فرمایا ، اس کے بعد اپنے 72؍جانثاروں کے ساتھ کوفہ کی طرف بغرض بیعت روانگی ڈال دی ۔ یہاں پہنچ کر سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انہی حالات کا سامنا کرنا پڑا جن سے حق کی تحریکیں دو چار ہوتی رہی ہیں ، وہ یہ کہ جن لوگوں نے حسینی ؓ تحریک کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا وہیںکوفی دھوکہ باز، بددیانت،مکار، غداراور منافق ثابت ہوئے۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ پہنچ کر اہل کوفہ میں عملًا کوئی تبدیلی نہیں دیکھی اور انہیں اہل کوفہ اسی اپنی پہلی حالت میں نظر آئے کہ جب انہوں نے ہی امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا تھا اور سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکالیف پہنچائی تھیں۔ کوفیوں کی بے ضمیری دیکھ کر اور اس تکلیف دہ اور مشکل صورت حال میں سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا یہ عزم داہرایا کہ وہ نہایت صبر و استقلال کے ساتھ آگے ہی بڑھتے چلے جائیں ، ملوکیت کی بدترین بدعت کے خاتمے کیلئے ہر سطح کی اذیتوں اور مظالم کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کریں گے، مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے آگ کے بھڑکتے شعلوں سے کھیلیں گے اور خون کے متلاطم سمندر میں غوطہ زن ہو کر حق کی مشعل فروزاں کریں گے، شہادتیں پیش کریں گے ، اتمام حجت کریں اور اسلام کو سرخرو کر کے رہیں گے۔
تاریخ اسلام اس پر گواہ ہے کہ کوفیوں کی غداری اور دغا بازی سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آہنی عزائم اور اسلامی حمیت کو شکست نہ دے سکی اوروہ پورے عزم و ہمت کے ساتھ آگے ہی بڑھتے چلے گئے ۔ یزیدی لشکر سد راہ بنی تو سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ا سے دوٹوک انداز میں مخاطب ہو کر زور دار تقریر کی اور اس لشکر تک یہ عظیم پیغام پہنچایا۔ ’’جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہو خدا کی قائم کی ہوئی حدیں توڑتا ہو ،عہد الٰہی کی شکست وریخت کرتا ہو، خدا کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہو، اس کے باوجود لوگ اس کا ساتھ دیں تو خدا ایسے لوگوں کو اچھا ٹھکانہ نہیں دے گا۔‘‘ لیکن اس پیغامِ حق کا کوفی اور یزیدی لشکر پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ پتھر دل موم ہونے کے بجائے مزید سخت ہوگئے اور آپ ؓ پر جنگ تھوپ دی ۔ دس محرم الحرام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کربلا کے میدان میں اپنی مٹھی بھر حق پرستوں اور اسلام کی حقانیت پر اپنی جانیں بچھاور کرنے والوں کی جماعت کے ساتھ نماز ظہر صلوٰۃ الخوف کے طور پر ادا کی۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانثار عمر کے اعتبار سے اکابر اور اصاغرتمام کے تمام یکے بعد دیگرے اپنی متاع عزیز قربان کرتے چلے گئے، بالآخر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ میدان کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدا کے حضور اپنے پورے خاندان کے ساتھ ایسی لامثال قربانی پیش کی جس کی معلوم انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جس طرح سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ جبر کے سامنے ڈٹ گئے ان کے اہل بیت کی فکری واخلاقی تربیت بھی ایسی ہی تھی کہ وہ بھی جبر کے ساتھ مفاہمت کرنے والے نہیں تھے یہ اور اس پیمانے کی عظیم ترین قربانی پیش نہ کی جاتی تو قیامت کے دن فاسق حکمرانوں کو بھی ’’وجہ ٔ جواز‘‘ مل جاتا کہ کسی فرد یا جماعت نے ان کے نظام پر کوئی اعتراض پیش نہیں کیا ۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میدان کربلا میں عظیم قربانی دے کر امت مسلمہ کے ہر فرد کو ایک غیور وجسور مسلمان کے شایان شان جینا سکھایا۔ اپنی اولاد اور عزیزواقارب کی میدان کربلا میں شہادتیں پیش کرنے سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام کے پرستار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار اسلام کے دئے ہوئے صاف و شفاف نظام کے برعکس کسی اور طریقۂ اقتدار یا نظام کو ہر گز قبول اور تسلیم نہیں کر سکتے۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ باطل کے لاؤولشکر کے باوجود مومن اپنے فریضہ ٔ مزاحمت سیہر گز اور قطعاً غافل نہیں رہ سکتا۔