شکست کے 4ماہ بعد فتح تک

Mir Ajaz
5 Min Read

سرینگر/بلال فرقانی/ جون میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنے سے لے کر 4 ماہ بعد اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی کے ساتھ جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیرِ اعلیٰ بننے تک، عمر عبداللہ کے لیے یہ ایک حیران کن سفر رہا ہے۔ 54 سالہ عمر عبداللہ نے بدھ کے روز جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیرِاعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا، جو بطور وزیرِاعلیٰ اْن کی دوسری مدت کا آغاز ہے اور عبد اللہ خاندان کی تیسری نسل کا اقتدار میں آنے کا مظہر ہے، اِس سے قبل ان کے دادا شیخ عبداللہ اور والد فاروق عبداللہ بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ عمر عبداللہ نے 2009 سے 2014 تک جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں ایک فیصلہ کن فتح حاصل کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے 90 میں سے 42 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اتحادی کانگریس نے 6 نشستیں جیتیں۔ دونوں اتحادیوں کو 95 رکنی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے، جبکہ 5 ارکان لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے نامزد کیے جانے ہیں۔ مزید، 5 آزاد امیدواروں اور واحد عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے نے بھی این سی-کانگریس اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ جون میں، عمر عبداللہ کو لوک سبھا انتخابات میں بارہمولہ سیٹ پر آزاد امیدوار انجینئر رشید کے ہاتھوں 2 لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دیگر پارٹیاں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف تھیں، عبداللہ نے اعلان کیا کہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے جب تک کہ مرکز جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ نہیں دے دیتا۔ تاہم، انہوں نے جلد ہی اپنا موقف تبدیل کیا اور این سی نے انہیں دو نشستوںبڈگام اور گاندربل سے امیدوار بنایا۔ انہوں نے دونوں حلقوں سے شاندار اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ آئین کی دفعہ370 کی منسوخی اور اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی سابقہ ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کیے جانے کے بعد نیشنل کانفرنس کے لیے حمایت میں اضافہ ہوا۔ عمر عبداللہ کا یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر کے پہلے وزیرِ اعلیٰ بننا ان کے سیاسی کیریئر کا واحد اہم سنگ میل نہیں ہے۔ یونیورسٹی آف اسٹریتھکلائیڈ سے ایم بی اے چھوڑنے کے بعد 1998 میں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور 28 سال کی عمر میں 12ویں لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے، جو کہ ایوانِ زیریں کے سب سے کم عمر رکن بنے۔ وہ 1999 میں دوبارہ منتخب ہوئے اور 2000 میں صنعت و تجارت کے وزیر مملکت اور پھر وزیر مملکت برائے خارجہ امور کے طور پر خدمات انجام دیں۔ تاہم، گودھرا واقعے کے بعد انہوں نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے والد نے ان کے حوالے پارٹی کی قیادت کی، لیکن عمر عبداللہ کو 2002 میں اسمبلی انتخابات میں خاندان کے مضبوط حلقے گاندربل سے ایک غیر معروف امیدوار قاضی محمد افضل کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔2004 میں وہ ایک بار پھر لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ 2008 میں اس وقت کے وزیرِ جنگلات قاضی محمد افضل کے ذریعہ امرناتھ شرائن بورڈ کو جنگلات کی زمین منتقل کرنے کے فیصلے نے بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے، عمر عبداللہ نے لوک سبھا میں جموں و کشمیر کی صورت حال پر ایک یادگار تقریر کی۔ 2008 کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں وہ گاندربل سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے، اور نیشنل کانفرنس سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ وہ 38 سال کی عمر میں ملک کے سب سے کم عمر وزرائے اعلیٰ میں سے ایک بنے اور کانگریس کے ساتھ مخلوط حکومت کی قیادت کی۔2014 کے انتخابات میں عمر نے بیرو ہ سے کامیابی حاصل کی، لیکن ریاست میں پی ڈی پی اور بھاجپا سرکار بنی۔ 4 اور 5 اگست 2019 کی درمیانی رات انہیں احتیاطی طور حراست میں لیا گیا۔ یہ گرفتاری آئین کے دفعہ 370 کے خاتمے کے پس منظر میں ہوئی۔ چھ ماہ کی نظر بندی کے بعد، انہیں 24 مارچ 2020 کو رہا کر دیا گیا۔

Share This Article