سرینگر// شوپیاں کے کچھڈورہ میں یکم اپریل کو جنگجوئوں اور فوج کے درمیان معرکہ آرائی کے دوران3مہلوک شہریوں کو پولیس نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے ’’شرپسند‘‘ قرار دیتے ہوئے اس ہجوم کا حصہ قرار دیا،جس نے تلاشی و محاصرہ پارٹی کو نشانہ بنا کر سنگبازی کی،تاکہ جنگجوئوں کو راہ فرار کا موقعہ مل سکیں،تاہم درگڈ میں میں ایک شہری کی مبینہ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے نتیجہ میںہلاکت کو کراس فائرنگ کا نتیجہ قرار دیا۔ شوپیاں کے سوگن درگڈ اور کچھڈورہ علاقے میں یکم اپریل کو فوج اور عساکروں کے درمیان معرکہ آرائی میں12جنگجو اور 3اہلکاروں کے علاوہ4شہری بھی جان بحق ہوئے۔۔ان واقعات پر بشری حقوق کارکن اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے انسانی حقوق کے مقامی کمیشن میں ایک عرضی دائر کی تھی،جس میں’’تصادم آرائی‘‘ کے دوران شہریوں کی ہلاکت سے متعلق تحقیقات اور زخمیوں کو معقول طبی امداد فرہم کرنے کی درخواست کی تھی،جس کے بعدکمیشن کے چیئرمین جسٹس(ر) بلال نازکی نے ایس ایس پی شوپیاں کو ان ہلاکتوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ5ہفتوں کے اندر پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس دوران پولیس نے درگڈ واقعے سے متعلق رپورٹ کمیشن میں پیش کیا۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس،جنوبی کشمیر کی طرف سے پیش کئے گئے رپورٹ میں کہا گیا ، متعلقہ ڈی ایس پی ہیڈ کواٹر سے اس واقعے کے حوالے سے رپورٹ طلب کی گئی،جس میں انہوں نے بتایا کہ31مارچ کو پولیس تھانہ شوپیاں کو معتبر ذرائع سے اطلاع ملی کہ کچھڈورہ شوپیاں میں جنگجو چھپے ہوئے ہیں،جبکہ ان جنگجوں سے نپٹنے کیلئے34 آرآر،14بٹالین سی آر پی ایف اور شوپیاں پولیس نے محاصرہ کیا،اور تلاشیوں کے دوران چھپے جنگجوئوں نے اہلکاروں پر اندھا دھند طریقے سے فائرنگ کی،جبکہ اہلکاروں نے بھی دفاع میں گولیاں چلائی،جس کے بعد دو بدو جھڑپ شروع ہوئی۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے’’ اس دوران نزدیکی علاقوں سے شرپسند عناصر نے تلاشی پارٹی کو بھی سنگبازی کا نشانہ بنایا،تاکہ پھنسے ہوئے جنگجوئوں کو راہ فرار کو موقع مل سکیں‘‘۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جھڑپ میں3فوجی اہلکار بھی لقمہ اجل بن گئے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ’’ جھڑپوں اور کراس فائرنگ کے دوران3 شر پسند(شہری) زبیر احمد بٹ والد عبدالاحد ساکن گوپالپورہ کولگام، معراج الدین میر ولد محمد یاسین ساکن اوکے کولگام اور محمد اقبال بت ولد منظور احمد ساکن خاسی پورہ شوپیاں،جو کہ مشتعل ہجوم کا حصہ تھے،اور محاصرہ و تلاشی پارٹی پر سنگبازی کر رہے تھے،زخمی ہوئے اور بعد میں اپنے ساتھی سنگبازوں کی طرف سے از خود اسپتال پہنچانے کے دوران ہلاک ہوئے،جبکہ مقامی لوگوں نے انہیں از خود سپردخاک کیا،اور علاقے میں سخت سنگبازی کی وجہ سے انکے آخری قانونی لوازمات بھی پورے نہیں ہوسکے۔جھڑپ میں5جنگجو بھی جان بحق ہوئے،جبکہ کچھ دیگر نوجواں بھی جھڑپوں کے دوران زخمی ہوئے۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس،جنوبی کشمیر کی طرف سے پیش کئے گئے رپورٹ میں کہا گیا ، ڈی ایس پی زینہ پورہ سے رپورٹ طلب کی گئی،جنہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پولیس تھانہ زینی پورہ کو متعبر ذرائع سے اطلاع ملی کہ درگڈ علاقے میں جنگجو چھپے ہیں،جس کے بعد44آر کے علاوہ14،79 اور185بٹالین سی آر پی ایف نے علاوے کا محاصرہ کیا،جبکہ تلاشیوں کے دوران چھپے جنگجوئوں نے گولیاں چلائی،اور فورسز و فوج نے بھی گولیاں چلائی۔ رپورٹ کے مطابق محاصرے کے دوران نواحی علاقوں کی بڑی بھیڑ نے پیٹرول بموں اور دیگر مہلک ہتھیاروں سے تلاشی و محاصرہ پارٹی پر حملہ کیا،تاکہ جنگجو کو فرار ہونے کا موقعہ مل سکیں،جبکہ اس نتیجے میں کئی فورسز اہلکار زخمی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق جھڑپ میں7 عساکروں کو جان بحق کیا گیا۔ پولیس کی طرف سے پیش کیں گئے رپورٹ میں کہا گیا کہ اس دوران ایک شہری مشتاق احمد ٹھوکر ولد غلام محمد ساکن درگڈ بھی کراس فائرنگ میں جان بحق ہوا،جس کا مکان جائے جھڑپ کے نزدیک تھا۔اس سے قبل محمد احسن اونتو نے ان ہلاکتوں سے متعلق بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے دروازے پر دستک دیکر عرضی دائر کی تھی۔عرضی میں کہا گیا تھا’’ سیکورٹی اہلکاروں نے ایک شہری مشتاق احمد ٹھوکر کو مجبور کیا تھا کہ وہ درگڈ،سوگن شوپیاں میں اس مکان کے نزدیک جائے،جس میں عسکریت پسند چھپے بیٹھے تھے‘‘۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ جب گولیوں چلی تو وہ بھاگنے میں ناکام ہوا،اور اس کو گولیاں لگی۔اونتو نے اپنی عرضی میں مزید کہا ہے’’لہذا،بہ الفاظ دیگر،کہ شہری کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا،جو کہ انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے‘‘۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ صورتحال سے بے خبر ٹھوکر پہلا شخص تھا،جس کی ہلاکت ہوئی۔انہوں نے عرضی میں کہا ہے کہ مہلوک شہری کو نزدیک سے گولیاں گردن پر لگی تھی۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ شہری کو دانستہ طور پر مارنے کیلئے گولیاں مار دی گئیں۔ عرض گزار نے کہا ہے کہ جان بحق شہری پھنس گئے اور انہیں فورسز نے ہدف بنایا۔ درخواست کے مطابق’’فورسز نے کچھ شہریوں کو گھروں سے نکالا اور انہیں نصف درجن مکانات کی تلاشیوں کے دوران پہلے داخل کیا،جبکہ انکی منشا،اصل میں انہیں انسانی ڈحال کے طور پر استعمال کرنے کی تھی‘‘۔ درخواست میں معراج الدین میر،محمد اقبال،زبیر احمد اور مشتاق احمد ٹھوکر نامی مہلوک شہریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے’’ فورسز اصل میں شہریوں کی سلامتی کیلئے ہیں،نہ کہ انہیں انہیں مارنے کیلئے،جبکہ جنگجوئوں کے ساتھ جھڑپ سے قبل شہریوں کی حفاظت لازمی ہے‘‘۔