Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

شنگھائی کا پور یشن آرگنائزیشن

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 1, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
جون کے مہینے میں عالمی منظر عام پہ ایک ایسی خبر آئی جس کی تشہیر اُس حد تک نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی۔پاکستان و بھارت شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن (Shanghai Cooperation Organization: SCO) کے ممبر بن گئے۔ جنوئی ایشیائی ممالک پاکستان و بھارت کا کسی عالمی تنظیم کا ممبر بننا کوئی اچھنبے والی خبر نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن اِس خبر کا ایک سفارتی پس منظر بھی ہے اور وہ یہ کہ بھارت پاکستان کو عالمی محفلوں سے دور رکھ کے تک و تنہا رکھنا چاہتاہے بلکہ پچھلے کم و بیش ایک برس میں بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دلوا کے اُسے عالمی سنسر کا نشانہ بنایا جائے یہاں تک کہ عالمی پابندیوں کے نرغے میں آ جائے۔ ایسے میں ہند و پاک کا ہم زماں ایک عالمی تنظیم میں شامل ہو جائیں یہ انہونی تو لگتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسا ہوا ہے۔شنگھائی کانفرنس آرگنازیشن میں ابھی تک ہند و پاک کی پوزیشن مبصرین کی تھی لیکن اب بحثیت ممبر دونوں ملک تنظیم میں شامل ہو گئے ہیں۔جہاں پاکستان وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی شمولیت پہ نریندرا موری کو مبارک باد دی وہی نریندرا مودی نے پاکستان کا نام لئے بغیر ایک بار پھر دہشت گردی کا راگ الاپاجس کا اثر دیکھا جائے تو بے سُری راگنی کے علاوہ کچھ نہ رہایعنی یہ کہ بھارتی نظریے کا کانفرنس میں کوئی خریدار رہاہو ایسا نظر نہیں آیا۔ 
 شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن میں ہند و پاک شمولیت کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے جن میں مہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا اِن دو جنوبی ایشیائی ممالک کی شمولیت اِس عالمی تنظیم کے رہنما اصولوں کی تقلید کرے گی؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہمیں تنظیم کے نصب العین کو جانچنا ہو گا۔ 26  اپریل 1996 ء میں شنگھائی پانچ کا اعلان منظر عام پہ آیا۔اِن پانچ ممالک میں روس،چین،قرگزستان،قازکستان و تاجکستان شامل تھے۔یہ اعلانیہ 15جون 2001 ء میں ایک تنظیم کی شکل کی اُبھر آیاجس میں اِن پانچ ممالک کے علاوہ ازبکستان بھی شامل ہوااور اِس تنظیم کو شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن  نامیدہ گیا۔اِس تنظیم کا نصب الین یورشین ممالک کی سیاسی،اقتصادی اور سیکورٹی یکجہتی قرار دیا گیا۔یورشین ممالک بہ معنی یورپین و ایشائی ممالک کا اتحاد ہے جس میں یورپی ملک روس کے ساتھ ایشیائی مرکزی کے ممالک شامل ہیں۔قارئین یہ ذہن نشین کریں کی زار روس کی سلطنت میں اور اُس کے بعد روسی بالشوئیک ریپبلک میں جو یونائٹیڈ سوؤیت سوشلسٹ ریپبلک کہلاتی تھی ایشیائی مرکزی یعنی سنٹرل ایشین ممالک روسی تسلط میں رہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ ممالک ثقافتی طور پہ روسیائی گئے چناچہ ایاز،ایازوف بن گیا اور رشید،رشیدوف! گر چہ روسی کوشش یہی رہی کہ سنٹرل ایشائی ممالک کو دین اسلام سے دور رکھا جائے لیکن اِس میں نہ تو زار روس کی وسیع سلطنت کامیاب ہوئی نہ ہی اُس کی جانشین بالشوئیک ریپبلک بلکہ استبداد میں گھرے ہوئے سنٹرل ایشائی سخت دباؤ کے باوجود اپنے دین پہ قائم رہے۔ افغانستان کو زیر کرنے کی سعی میں روسی بالشوئیک ریپبلک بکھر گئی اور سنٹرل ایشائی ممالک آزاد ہوئے لیکن یہاں روسی اثرات موجود ہیں جو روس سے سیاسی، اقتصادی و ثقافتی رشتے بر قرار رکھنے پہ منتج ہوئے ہیں اور اِس اتحاد نے یورشین اتحاد کی صورت اختیار کی ہے جس میں چین شامل ہو گیا ہے۔
چین کا شمال مغربی حصہ سنٹرل ایشیا میں شامل ہے جسے چینی ترکستان کہا جاتا ہے جیسے کہ سنٹرل ایشیا کے بیشتر علاقوں کو جن پہ پہلے روسی مسلط تھے روسی ترکستان کہا جاتا ہے ۔یہاں کے لوگ گر چہ ترک نژاد کہلاتے ہیں لیکن یہاں کی لسانی زبانوں میں جہاں ترکی ہے وہی فارسی بھی شامل ہے ۔یہاں منگول نسل کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔یہاں کی لوگوں کی مشکل زمینی قفل بندی ہے۔ بحیرہ خزر جیسے سرد پانی کے بحریے گر چہ کہیں کہیں ساحل فراہم کرتے ہیں لیکن بیشتر علاقوں میں کوئی ساحل فراہم نہیںہے جس سے عالمی تجارت کے امکانات محدود ہیں۔قارئین کو یہ بات ذہن نشین کرنی پڑے گی کہ پچھلی کئی صدیوں سے بین الاقوامی تجارت سمندری راہروں سے ہوتی ہے اور یہ سلسلہ تب سے قائم ہوا جب یورپی رستا خیز ( احیای نو: Renaissance)کے د ر پے شاہراہ ابریشم زائل ہوئی جبکہ زمانہ قدیم میں یہی شاہراہ عالمی تجارت کی شہ رگ مانی جاتی تھی۔
سنٹرل ایشیا کی مانند روس کی ساحل بھی محدود ہے اور جہاں ساحل ہے بھی وہ سرد پانی کے کنارے بلکہ کہیں کہیں سرمائی ایام میں یخ بستہ بھی ہوتی ہے۔ساحل کی محدودیت نے روس کو عالمی تجارت میں وہ مقام عطا نہیں کیا جسے اُسے صنعتی فروغ حاصل ہوتا گو کہ روس دفاعی ساز و سامان کی پیدوار میں پیشرفتہ مانا جاتا ہے اور دفاعی حثیت میں دنیا کے پیشرفت ممالک بھی مانا جاتا ہے۔ افغان مہم میں روس کو کافی دھکا لگا جبکہ اُس سے پہلے سوؤیت سوشلسٹ ریپبلک امریکہ کے ساتھ دنیا کی دوسری سپر پاور مانی جاتی تھے۔روس کو اقتصادی ضعف کھا گیااور اُس کی سدھارنے کی مہم میں وہ یورشین بلاک بنانے کے درپے ہے جہاں اُسے چین جیسے مضبوط اقتصادی ملک کی ہمراہی نصیب ہے جو آج کل امریکہ کے بعد دوسری بڑی اقتصادی قوت مانی جاتی ہے۔ چین سے وابستہ سمندری ساحلوں کی وسعت گر چہ روس و سنٹرل ایشائی ممالک کی نسبت کافی وسیع ہے البتہ عالمی تجارتی منڈیوں سے دوری ثانیاََ بحرمنجمند پہ امریکی بحریے کی بالا دستی چین کی تجارتی وسعت میں رخنے کا سبب بن رہی ہے لہذا چین متبادل راستوں کی تلاش میں ہے ۔ اپنے اقتصادی احداف کی بر آوری کیلئے چین نے زمانہ قدیم کی شاہراہ ابریشم کی ایک جدید شکل پیش کی ہے جو کم و بیش اُنہی راستوں سے گذرتی ہے جہاں سے زمانہ قدیم کی شاہراہ گذرتی ہے لیکن جہاں پہ زمینی راستوں کے آگے سمندری پانی ہے وہاں بندرگاہوں کے فروغ پہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے تاکہ سمندری راہروں کی وسعت کو زمینی راہروں سے ملا کے ایک متبادل عالمی تجارتی شاہراہ کی تشکیل دی جائی۔
چین نے قراقرم کی بلندیوں کے آر پار کی شاہراہ کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے ملایا ہے جس سے اُس کا تجارتی مال جنوبی چینی سمندر سے بحر منجمند کی وسعتوں کو عبور کرنے کے بعد آبی راہرو سٹریٹ آف ملاکا سے گذر کے جہاں طویل مسافت کے بعد بحر ہند میں داخل ہو تا ہے وہی اب چینی ایکسپورٹ گوادر کی بندرگاہ سے دو تہائی کسر مسافت کے بعد بحیرہ عرب میں داخل ہو گا جہاں آگے خلیج ممالک کے بازار ہیں اور پھر مشرق وسطی و یورپ کے بازاروں میں اسراع وقت میں مال پہنچے گا ۔یہ متبادل راستہ چین کے امپورٹ کو بھی آساں بنا دے گا ۔ چین کو مزید اقتصادی وسعت کیلئے توانائی کی اشد ضرورت ہے اور یہ توانائی اُسے خلیجی ممالک سے بدون زیاںوقت میسر رہے گی۔ پاکستان کے علاوہ 65یورپی،ایشیائی و افریقی ملک چین کی جدید سلک روٹ میں شامل رہیں گے۔اِس نئی سلک روٹ پہ جس وسیع سرمایہ کاری کی ضرورت ہے وہ چین ممکنہ حد تک پوری کرے گاجس کیلئے چین کے پاس ایک تخمینے کے مطابق در حال حاضر 4ٹریلین ڈالر زر مبادلہ میسر ہے۔ شنگھائی کوپریشن آرگنائزیشن اِس وسیع منصوبے کو عملیانے کا ایک وسیلہ ہو سکتا ہے گر چہ ابھی تک اِس تنظیم کے احداف میں سلک روٹ شامل نہیں ہے لیکن اُس میں جو بھی ممالک شامل ہیں وہ سلک روٹ میں بندھے ہوئے ہیں یعنی سنٹرل ایشیائی ممالک و روس اور اِس میں اب جنوب ایشیائی ممالک ہند و پاک شامل ہو گئے ہیں لیکن جہاں چین پاکستان پاک اقتصادی راہداری (سی پیک) سے چینی سلک روٹ منصوبوں سے بندھا ہوا ہے وہی بھارت کے تحفظات رخنے کا سبب بن گئے ہیں۔
 شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن میں ہند و پاک کی شمولیت کا مقصد اِس تنظیم کی وسعت کو یورشین بلاک سے آگے جنوبی ایشائی ممالک تک پہنچانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تحفظات کے ہوتے ہوئے بھارتی شمولیت کس غرض سے کی گئی ؟ بھارت در اصل روسی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے جس میں میزئل ٹکنالوجی کی خریداری بھی شامل ہے اور دیکھا جائے اسلحہ کی صنعت روس کی سب سے بڑی صنعت ہے جس سے اِس ملک کو بیشتر زر مبادلہ ملتا ہے اسلئے روس بھارت کو اپنے ساتھ رکھنے کے درپے ہے حالانکہ روس کو یہ بات معلوم ہے کہ بھارت کے اُس کے عالمی حریف امریکہ کے ساتھ سیکورٹی کا پیماں ہے اور عالمی احداف کی بر آوری میں امریکہ کو بہت حد تک بھارت کا ساتھ ہے لیکن یہ بھی صیح ہے کہ بھارتی دفاعی ساز و ساماں عرصہ دراز سے روس ہی سے خریدا جا رہا ہے گر چہ حالیہ برسوں میں بھارت نے اپنی دفاعی خریداری کے متبادل ذرائع ڈھونڈنے شروع کئے ہیں جن میں امریکہ،مغربی یورپی اقوام کے علاوہ اسرائیل بھی شامل ہے۔باہمی تحفظات کے باوجود روس و بھارت ہمکاری نبھا رہے ہیں کیونکہ یہ دونوں کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی البتہ کئی برسوں سے روس پاکستان سے اپنے رابطوں کو وسعت دینے کی سعی کر رہا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو اپنا حریف سمجھتا ہے بلکہ سرحد کے آر پار کی دہشت گردی (کراس بارڑر ٹرریزم :Cross Border Terrorism) کا الزام پاکستان پہ عائد کرتا جا رہا ہے حتّی ہر عالمی محفل میں یہ راگ الاپنابھارت کا شیوہ بنتا جا رہا ہے حالانکہ حساس سفارتی محفلوں میں پاکستان کا نام براہ راست نہیں لیا جاتا ہے لیکن اِن محفلوں میں موجود سمجھتے ہیں کہ نشانہ کس پہ تاکا جا رہا ہے۔اکثر و بیشتر ممالک کے مفادات بھارت سے بھی بندھے ہیں اور پاکستا ن سے بھی لہذا بھارتی الزامات کی ان سنی کی جاتی ہے پھر بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہند و پاک جب رواں مہینے جون 2017ء میںشنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے مستقل ممبر بنے تو بھارت نے پھر دہشت گردی کا راگ چھیڑا ۔ظاہراََ تمام ممالک حتّی روس و چین بھی دہشت گردی کی مذمت میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن جہاں نشانہ پاکستان پہ تاکا جاتا ہے تو وہاں تیر نشانے پہ نہیں بیٹھتا۔ روسی صدر والڈمیر پیوٹین سے جب ایک بھارتی نامہ نگار نے کشمیر میں مبینہ  پاکستانی دہشت گردی کے بارے میں سوال کیا تو روسی صدر نے بلا تامل جواب دیا یہ اُس کے کہنے کی بات نہیں کہ پاکستان کشمیر میںدہشت گردی میں ملوث ہے بلکہ اُنہوں نے یہاں تک کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے تدراک میں اقدامات اٹھائے ہیں ۔ والڈمیر پیوٹین کا یہ بھی کہنا ہے اُن کے بھارت سے گہرے سمبندھ ہیں لیکن یہ دوسرے ممالک سے روابط استوار کرنے کے مانع نہیں ہونے چاہیں۔ روسی ڈپلو میسی ہند چین تناؤ سے نبٹنے میں جہاں کامیابی کے امکانات روشن سمجھتی ہے وہی ہند پاک تنازعات سے نبٹنے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایسا روسی تجزیہ نگاروں کی رقم شدہ تحریروں میں پڑھنے کو ملتا ہے لیکن روسی ڈپلومیسی پاکستان سے تعلقات کو وسعت دینے میں مصمم ہے بلکہ پاکستان کو زپر (Zipper) کہا جاتا ہے جو مختلف عالمی خطوں کو باندھ کے رکھنے کے کام آ سکتا ہے۔پاکستان سنٹرل ایشیا، جنوبی ایشیا،مغربی ایشیا اور چین کے بیچوں بیچ واقع ہے اور پاکستان کی یہ جغرافیائی پوزیشن اُس کی عالمی حثیت میںافزائش کا سبب ہے حالانکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی اقتصادی حیثیت کافی ضعیف ہے۔بھارت کا وسیع بازار چینی نظروں میںبھی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بھارت چینی ایکسپورٹ کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے لہذا روس کی طرح چین بھی شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن میں بھارتی ممبرشپ کا حامی رہا ۔ استانا (قازکستان کا دارلحلافہ) میں تنظیم کے اجلاس سے کچھ ہی دیر پہلے چین نے سلک روٹ کے سلسلے میں جو وسیع عالمی کانفرنس بیجنگ میں منعقد کی اُس میں بھارت نے دعوت کے باوجود شرکت نہیں کی حالانکہ یہاں تقریباََ تمام ممالک کے ڈیلی گیشن شامل رہے اور 29ممالک کے سربراہاں نے شرکت کی۔بھارت کی عدم شمولیت کی دلیل یہ رہی کہ سی پیک کا گذر ایک ایسے علاقے سے ہے جس پہ اُسے سرداری(Sovereignty)حاصل ہے یعنی گلگت بلتستان جبکہ چین کہتا ہے کہ اُسے سرداری کے دعوؤں سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ صرف ایک اقتصادی راہداری کا حامی ہے جو علاقائی رسل و رسائل کے فروغ کا سبب بنے۔
 شنگھائی کا پو ریشن آرگنائزیشن کے احداف میں سیاسی، اقتصادی و سیکورٹی ہمکاری ہے۔پوچھا جا سکتا ہے کہ جہاں بھارتی نظریہ اِن احداف کے بارے میں تنظیم کے دوسرے ممبراں کے نظریے سے میل نہیں کھاتا تو کیا وہاں یہ تنظیم اپنے احداف کی تکمیل میں گامزن رہ سکتی ہے یا اُسکی قسمت میں بھی سارک کی ناکامیاںرہے گیں جس کو ہند و پاک چقلش نے ایک بیکار تنظیم بنایا ہے جو کب سے کفن دفن کا انتظار کر رہی ہے۔دونوں تنظیموں میں ایک واضح فرق ضرور ہے یہاں روس و چین جیسے طاقتور ممالک شامل ہیں جنہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ہند و پاک کی تنظیم میں شمولیت کے حامی تو ہیں لیکن اُن کی باہمی چقلش کے خریدار نہیں!اللہ نگہباں!
یار زندہ صحبت باقی!
Feedback:[email protected]
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پانپور میں اکھنور کانوجوا ن غرق آب، تلاش جاری
تازہ ترین
ضلع انتظامیہ رام بن نے ’’ کھیر بابا یاترا ‘‘کا چنڈراکوٹ، پرجوش استقبال کیا
تازہ ترین
ٹنل کے آرپارپہاڑی علاقوں میں تازہ برف باری ،میدانی علاقوں میں بارشیں، 3جون تک مزید بارشوں کی پیشگوئی
تازہ ترین
سینکڑوں عقیدتمند کشمیری پنڈت کھیر بھوانی میلے کے لیے روانہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

مشتاق احمد بٹ کی تصنیف Flames of Soil میری نظر میں تجزیہ

May 30, 2025
کالممضامین

’’واردات‘‘ — دیہی زندگی کا آئینہ، کرشن چندر کے تخلیقی قلم سے تبصرہ

May 30, 2025
کالممضامین

علامہ آغا سید محمد باقر الموسوی الصفوی | علم، عرفان اور خدمت کا عظیم سفر

May 30, 2025
کالممضامین

جوہری ہتھیاروں کا پھیلائودُنیابھرکے لئے تباہ کُن! | چین پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی، جنگ کی صورتحال جاری ؟ حال و احوال

May 30, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?