دِن کا اُجالا اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا اور سلیمان اپنے احساسات کی لاش کو کندھوں پر اُٹھائے خراماں خراماں جارہا تھا! بعض اوقات وہ لاش کو کندھوں سے اُتار کر اُسے زمین پہ رکھ کر ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے نہ جانے کیا کچھ سوچتا تھا۔ وہ پھر لاش کو اپنے کندھوں پر لاد دیتا اور دھیرے دھیرے آگے قدم بڑھاتا تھا۔ شائد سلیمان کی منزل وہ بوڑھا چنار تھا جو اب اپنی بے بسی کا رونا رورہا تھا۔ تب ہی اُس نے اپنے احساسات کی لاش کو اُس بوڑھے چنار کے نیچے زمین پر رکھا۔۔۔!
شام ہوچکی تھی۔ سورج اپنی سنہری چادر لہلاتے سرسبز کھیتوں پر سے سمیٹنے لگا تھا۔ سلیمان لاش کے سامنے آنسوں بہانے لگا اور اُس سے یوں مخاطب ہوا۔
’’اے ظالم انسان! طاقت کے نشے میں تمہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیا۔ کتنے آشیانے تو نے جلا کر راکھ کردیئے؟ کتنے گلستان اُجاڑ دیئے؟ کتنے سپنوں کے محل تو نے زمین بوس کئے؟‘‘ اس کے بعد وہ بہت رویا۔
اُس نے اپنی قبا کے دامن سے آنسوئوں پونچھ لئے اور لاش کا گریبان زور سے پکڑ لیا اور پھر لاش سے یوں گویا ہوا۔۔۔۔!
’’کیا یہ وہی چنار نہیں ہے جو تپتی ہوئی دھوپ میں تمہیں سایہ دیتا تھا؟ کیا یہ وہی چنار نہیں ہے جس کے ساتھ تم ٹیک لگا کر خوبصورت خواب بنتے تھے؟ اسی چنار کے نیچے تم پرندوں کے میٹھے بول سن کر اپنے من کی اُداسی کو مسرت اور سکون کی لہروں میں نہیں بدلتا تھا! لیکن تم خود غرض نکلے، سب کچھ بھول گئے۔ کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ تم نے اُس چنار کو لُوٹا جو تمہاری روایات اور تہذیب کی علامت ہے! اِس چنار نے تمہیں شناخت دی۔ تمہارے ہونے کے اِتہاس کو گردشِ ایام سے محفوظ رکھا۔ تو نے اس کے عوض اس بوڑھے چنار کو کیا دیا؟ تمہارے ہاتھ اس کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ تم تہذیب کے قاتل ہو! تم نے بڈشاؔہ کے اثاثہ کو اپنے حقیر مفادات کے خاطر نیلام کیا!‘‘
لاش کے چہرے پر سلیمان اپنی گذری ہوئی زندگی کے حقائق زنگ آلودہ آئینہ کی طرح آنکھوں کے سامنے رکھ کر دیر تک ٹکٹکی لگائے انہیں دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ کالی رات نے خستہ حال بوڑھے چنار کو اپنے آغوش میں لے لیا!!
آزادی کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام