عبدلمجید بھدرواہی
انیس احمد کے والدین نے اسکے لئے ایک پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی پسند کی۔ اب منگنی کی رسم کی تاریخ مقرر کرنی تھی مگر انیس احمد، جو کہ انجینئر نگ محکمہ میں حال ہی میں ملازم ہوا تھا کسی نہ کسی وجہ سے ٹال مٹول کرتا تھا۔ کبھی کہتا تین دن تک کوئی فرصت نہیں، کبھی کہتا مجھے اپنے دوست کا انتظار ہے ۔ سوموار منگلوار میں نے سائیٹ پر ہی رہنا ہے۔ اس لئے ان دنوں کے بعد ہی شادی کا سوچیں گے۔
دراصل اس کو ایک دن دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہلکا سا چکر آیا تھا ۔ جس کے لئے اس نے ڈاکٹر کے مشورہ سے MRI/Catscan کروایا تھا۔ جس میں دکھایا گیا تھا کہ دماغ میں Space occupying lesion یعنی برین کینسر ہے مگر وہ یہ بات اپنے والدین کو نہیں بتانا چاہتا تھا۔
ابھی چونکہ پہلی تنخواہ بھی نہیں ملی تھی۔ اس لئے وہ اپنے والد صاحب سے علاج معالجہ کے بہانے روپے لیتا تھا مگر خرچ نہ کرتا تھا ۔ اس نے ان کو صرف یہ کہا تھا کہ اس کو انتڑیوں میں سوجھن ہے۔
وہ روز دوائیوں اور ٹیسٹ کے بہانے پیسے لیتا اور ان کو سرہانے کے نیچے چھپائے رکھتا ۔ وہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا۔ سردرد اور چکر آنے کی رفتار بھی تیز
سے تیز تر ہوتی گئی۔
ایک دن جب اسکو قدرے افاقہ ہوا تو اس نے گھر والوں کو کہا کہ اب وہ ٹھیک ہو رہا ہے ۔ اس لئے اگلے دس دن میں شادی کی تاریخ مقرر کی جائے تو بہتر رہے گا۔
در اصل اس کو کوئی آرام وغیرہ نہ تھا ڈاکٹر نے ساری پوزیشن بتادی تھی۔
اس نے از خود اندازہ لگا رکھا تھا کہ ان ہی دس بارہ دنوں میں وہ اس دنیا سے کوچ کر جائے گا ۔ ادھر گھر والے منگنی کی تیاری کر رہے تھے اُدھر انہیں یک لخت سردرد، چکر اور الٹیاں آنی شروع ہوئیں اور اسی کے ساتھ ہی وہ واصل بحق ہو گیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جب تجہیز و تکفین کی تیاری ہو رہی تھی ۔ اس دوران اس کے جیب سے تمام رقم جو وہ علاج و معالجہ، دوائیوں کے لئے اپنے ابو سے لیتا تھا اور ایک خط ملا جس میں اس نے لکھا تھا کہ وہ جان بوجھ کر منگنی کی رسم کی تاریخیں آگے کرتا تھا
کیونکہ اسے معلوم تھا کہ شمع بالآخر بجھنے ہی والی ہے۔ اس طرح اس نے لڑکی کی زندگی سے کھلواڑ نہ کیا ورنہ اس کی بھی زندگی برباد ہو جاتی۔
���
ہمہامہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8825051001
[email protected]