شمسی پورہ(اننت ناگ)//8ویں جماعت کے طلاب علم نے جب جمعہ کو مقامی درسگاہ میں نماز فجر کی پیشوائی کی،شائد وہ نہیں جانتے تھے کہ شائد یہ انکی زندگی کی آخری نماز فجر ہوگی۔ بٹینگو کے ہیر ا پبلک اسکول میں زیر تعلیم13برس کا احسان مشتاق مقامی مسجد شمسی پورہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے اسکول سے جلدی واپس لوٹا جبکہ اس دوران نواحی علاقہ آرونی میں عسکریت پسندوں اور فوج و فورسز کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہوئی تھی۔ نماز جمعہ کے بعد کئی لوگ مسجد سے نکلتے ہی آرونی کی طرف چل دیئے اور احسان مشتاق بھی ان میں شامل ہوا،تاہم عینی شاہدین کے مطابق احسان کو پہلے فورسز نے پکڑ کر شدید زد کوب کیا اور بندوقوں کے بھٹوں سے اس پر وار کیا،اور بعد میں اس کو ہدف بنا کر نزدیک سے گولیاں چلا دی گئیں۔ احسان کے اہل خانہ اورہمسایہ نے بھی اس کی تصدیق کی۔احسان کے ایک رشتہ دار نے بتایا’’ احسان کے سر اور جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے جبکہ کندھے اور سینے کے درمیانی حصے پر پیلٹ کے نشان بھی تھے‘‘۔اس دوران احسان کو فوری طور پر سب ڈسڑکٹ اسپتال کیموہ منتقل کیا گیا،جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔ احسان مشتاق کو اس کے پڑوسیوں نے ایک ہونہار اور قابل طالب علم اور شریف بچہ بھی قرار دیا۔مقامی نوجوان بلال احمد کے مطابق’’ احسان اپنا زیادہ تر وقت مقامی درسگاہ میں گزارتا تھا،جہاں نہ صرف وہ خود تعلیم حاصل کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی پڑھاتا تھا‘‘۔ احسان کے والدمحکمہ صحت میں ملازم ہے،جبکہ38 برس کے مشتاق احمد اپنے بیٹے کے جانے کے غم میں بہت مغموم ہیں،اور جب سے اس نے اپنے بیٹے کے جاں بحق ہونے کی خبر سنی ہے،شاید ہی اس نے کسی سے بات کی ہو۔مشتاق احمد کے نزدیک بیٹھے ایک شخص نے تعزیت پرسی کرنے والوں سے استدعا کی کہ اس کو تھوڑی دیر کیلئے رونے دیا جائے تاکہ اس کا غم ہلکا ہو،جبکہ کمرے میں موجود کئی لوگ اگر چہ انہیں روزہ توڑ کر پانی پینے کی زبردست کوشش کر رہے تھے،تاہم اس نے سب کی درخواست کو سختی کے ساتھ نکار دیا۔ احسان ،مشتاق احمد وانی اور اس کی اہلیہ میمہ کا اکلوتا فرزند تھا جبکہ دیگر دو بیٹیاں غزالہ10ویں جماعت اور نازش چوتھی جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔ احسان کے چاچا جاوید وانی نے اپنے بھتیجے کو ایک ہونہار لڑکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمیناروں،اور دیگر سرگرمیوں میں متحرک ہوکرشرکت کرتا تھا۔