بلال فرقانی
سرینگر // جموں کشمیر میں ایک لاکھ میگاواٹ شمسی توانائی کے امکانات کے باوجود ترقی کی رفتار سست ہے اور فی الوقت گھریلو اور کمرشل چھتوں پر لگائے گئے شمسی نظاموں کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت محض 75 میگا واٹ ہے۔ مرکزی زیر انتظام خطہ کو قدرت نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، خصوصاً شمسی توانائی کے شعبے میں یہ خطہ ملک کے چند بہترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وزارتِ توانائی و قابلِ تجدید وسائل کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں شمسی توانائی کی کل تخمینہ شدہ صلاحیت 748 گیگا واٹ ہے، جس میں جموں و کشمیر 1,11,050 میگا واٹ پیک کے ساتھ دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ یہاں سورج کی روشنی سال بھر فراخدلی سے دستیاب رہتی ہے، جہاں ماہانہ اوسطاً 323 گھنٹے دھوپ ریکارڈ کی جاتی ہے، جو گرمیوں میں 382 گھنٹوں تک پہنچ جاتی ہے۔ نیز، یہاں یومیہ شمسی تابکاری کی اوسط 5.5 کلو واٹ گھنٹہ فی مربع میٹر ہے، جو ملک کے بیشتر علاقوں سے کہیں زیادہ ہے۔ان تمام امکانات کے باوجود، جموں و کشمیر میں شمسی توانائی کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ موجودہ وقت میں خطے میں گھریلو اور کمرشل چھتوں پر لگائے گئے شمسی نظاموں کی مجموعی نصب شدہ صلاحیت محض 75 میگا واٹ ہے، جو کہ دستیاب استعداد کا صرف ایک فیصد ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے ‘پی ایم سوریہ گھر مفت بجلی یوجنا’ کے تحت ہزاروں گھروں میں شمسی پینلز نصب کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، لیکن متعدد دیہی علاقوں میں لوگوں کو ابھی تک اس اسکیم سے متعلق مکمل آگاہی نہیں دی گئی ہے۔ کئی مقامات پر نصب شدہ یونٹ ادھورے چھوڑ دیے گئے ہیں، یا فنی خرابیوں کے باعث غیر فعال ہو چکے ہیں۔مالی معاونت کے شعبے میں بھی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ سٹیٹ بینک آف انڈیا نے اگرچہ 7 فیصد سود پر شمسی قرضوں کی پیشکش کی ہے، مگر درخواست گزاروں کو مالی منظوری، سبسڈی کے اجرا اور دیگر ضوابط کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر کا سامنا ہے، جس سے عام صارف کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔جموں و کشمیر انرجی ڈیولپمنٹ ایجنسی نے 2025 کے اختتام تک 20,000 سرکاری عمارتوں پر شمسی پینل لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے، جس سے 300 میگا واٹ اضافی بجلی پیدا ہونے کی امید ہے۔ تاہم، ماضی میں ایسے کئی اہداف فائلوں کی حد تک ہی محدود رہے۔ اسی طرح، کسانوں کو شمسی توانائی سے چلنے والے پمپ فراہم کرنے کیلئے ‘پی ایم کسان اْرجا سرکشا یوجنا’ شروع کی گئی ہے، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ بیشتر پمپ تربیت کی کمی اور مرمتی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔کشمیر پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹڈ نے اب تک صرف 100 گھریلو شمسی تنصیبات مکمل کی ہیں، جو کہ محض علامتی پیش رفت ہے۔ جبکہ خطہ کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر، یہ تعداد نہایت کم اور غیر تسلی بخش ہے۔توانائی کے ترسیلی نظام کی صورتِ حال مزید مایوس کن ہے۔ محکمہ بجلی کے ایک سابق سینئر انجینئر، فیض شاہ کے مطابق، جموں و کشمیر میں بجلی کی ترسیل کے دوران 50 فیصد سے زیادہ توانائی ضائع ہو جاتی ہے، جو قومی اوسط سے دگنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نقصانات نہ صرف بجلی کی پیداوار اور تقسیم کو متاثر کرتے ہیں بلکہ شمسی توانائی کو گرڈ میں مؤثر انداز میں شامل کرنے کی کوششوں کو بھی ناکام بناتے ہیں۔ فیض شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک جدید گرڈ سسٹم، توانائی ذخیرہ کرنے والے یونٹ، اور مؤثر نیٹ میٹرنگ کا نفاذ نہیں کیا جاتا، تب تک شمسی توانائی کا خواب صرف نعرہ ہی بن کر رہ جائے گا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت واقعی توانائی کے شعبے میں خود کفالت چاہتی ہے تو اسے پالیسی کی سطح پر اصلاحات کرنی ہوں گی، سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا، اور شمسی مصنوعات کی مقامی سطح پر تیاری، تنصیب و مرمت کے شعبوں میں ہنر مندوں کی تیاری پر توجہ دینا ہوگی۔