سوپور+بارہمولہ+بانڈی پورہ //جموں وکشمیر پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ شبانہ آپریشن کے دوران شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے امرگڈھ سوپور میں خونرینز جھڑپ کے دوران لشکر طیبہ سے وابستہ تین جنگجو جاں بحق جبکہ مسلح تصادم میں ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا ۔گذشتہ پانچ دنوں کے دوران ہونے والے شبانہ جنگجو مخالف آپریشنوں میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تعداد بڑھ کر 8 ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ پانچ دنوں کے دوران جنگجو مخالف آپریشنوں کے دوران 3 عام شہری اور ایک میجر سمیت دو فوجی اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔
جھڑپ
پولیس نے مسلح تصادم کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ سوپور کے جامع محلہ امرگڈھ میں جنگجوؤں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملنے پر فوج کی 52 راشٹریہ رائفلز، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی 92، 177 اور 179 بٹالین اور جموں وکشمیر پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ نے مذکورہ علاقہ میں گذشتہ رات مشترکہ تلاشی آپریشن شروع کیا۔ انہوں نے بتایا ’جب سیکورٹی فورسز مذکورہ علاقہ میں ایک مخصوص جگہ کی جانب پیش قدمی کررہے تھے تو وہاں چھپے بیٹھے جنگجوؤں نے ان پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کی‘۔ مکان میں چھپے بیٹھے جنگجو وہاں سے باہر نکل آئے اور مکان کے صحن میں فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے۔مارے گئے جنگجوئوں کی شناخت جاوید احمد ڈار ساکن خانپورہ بارہمولہ ،شوکت احمد ڈار بٹہ پورہ سوپور اور عابد حمید میر ساکن حاجن بانڈی پورہ کے بطور کی گئی۔انہوں نے بتایا ’مسلح تصادم کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا، تاہم املاک کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچا‘۔ مسلح تصادم کے ختم ہونے کے بعد ایس پی سوپور ہرمیت سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تصادم میں لشکر طیبہ سے وابستہ تین جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔ انہوں نے کہا ’ہمیں کل رات ڈیڑھ بجے کے قریب ایک اطلاع ملی تھی کہ یہاں امرگڈھ علاقہ میں دو سے تین جنگجو کسی گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم نے آرمی اور سی آر پی ایف کے ساتھ مل کر علاقہ کا محاصرہ کیا۔ ہفتہ کی علی الصبح جب ہم علاقہ میں تلاشی آپریشن چلا رہے تھے تو وہاں چھپے جنگجوؤں نے فائرنگ کی۔ ہم نے بھی جوابی فائرنگ کی جس میں لشکر طیبہ کے تین جنگجو مارے گئے۔ گولیوں کا تبادلہ ہفتہ کی صبح چار سے چھ بجے تک جاری رہا۔ ان کے قبضے سے تین اے کے رائفلیں برآمد کی گئیں‘۔ یہ اگست میں شمالی کشمیر میں ہونے والا پہلا جنگجو مخالف آپریشن تھا۔
تصادم آرائیاں
امرگڈھ سوپور میں تین جنگجوؤں کی ہلاکت کی خبر پھیلنے کے بعد شمالی کشمیر میں متعدد مقامات پر احتجاجیوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں ہوئیں جن میں سیکورٹی فورس اہلکاروں کے سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔شمالی ضلع بانڈی پورہ کے صدرکوٹ بالامیں تین نوجوان اس وقت شدید زخمی ہوگئے جب سیکورٹی فورسز نے احتجاجیوں پر مبینہ طور پر براہ راست فائرنگ کی۔ زخمی نوجوانوں کی شناخت لطیف احمد خان، ہلال احمد وانی اور سہیل احمد بٹ ساکنان صدرکوٹ بالا کے بطور ظاہر کی گئی ہے۔سوپور میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کی گئیں جبکہ سوپور ، بانڈی پورہ، حاجن اور بارہمولہ میں ہڑتال کی گئی اور اس دوران شدید جھڑپیں بھی ہوئیں۔مظارے روکنے کے لئے سوپور کے مین چوک، بٹہ پورہ، بس سٹینڈ،ڈائون ٹائون اور چھانہ کھن علاقوں میں سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں۔تاہم اسکے باوجود بٹہ پورہ میں نوجوان جمع ہوئے اور انہوں نے مظاہرے شروع کئے جس کے دوران شدید پتھرائو کیا گیا اور فورسز نے شلنگ کی۔ایک نوجوان کے سر میں شل لگا اور وہ شدید طور پر زخمی ہوا جس کی حالت نازک ہے۔انتظامیہ نے ہفتہ کے روز شمالی کشمیر کے متعدد علاقوں بالخصوص قصبہ سوپور اور بارہمولہ میں احتیاطی اقدام کے طور پر تمام تعلیمی ادارے بند رکھے۔ جہاں بارہمولہ اور بانڈی پورہ اضلاع میں موبائیل فون اور انٹرنیٹ سروس کلی طور پر معطل کرادی گئی۔
نماز جنازہ
امر گڑھ سوپور میں مارے گئے تینوں جنگجوئوں کی نمازجنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور اس دوران اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔بٹہ پورہ سوپور کے دانش شوکت ڈار کی نماز جنازہ نماز عصر کے بعد جامع مسجد سوپور میںپڑھائی گئی۔انکے جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے جو آزادی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔اسکے بعد انہیں عشہ پیر مزار شہداء میں سپرد خاک کیا گیا۔اس کے بعد علاقے میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔بٹہ پورہ اور مین چوک میں شدید نوعیت کی جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران شلنگ سے فیصل احمد کے سر میں شدید چوٹ آئی اور اسے صدر اسپتال منتقل کردیا گیا۔خان پورہ بارہمولہ میں بھی مارے گئے دوسرے جنگجو کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے اور آزادی کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔جاوید احمد ڈار کی میت جونہی یہاں لائی گئی تو ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے نعرے بازی شروع کی۔بعد میں ایک کھلی جگہ پر انکی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جلوس کی صورت میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔حاجن کے عابد حمید میر کی میت جونہی اسکے آبائی گھر لائی گئی تو وہاں کہرام مچ گیا۔مختلف مقامات پر نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے جلوس نکال کر آزادی کے حق میں نعرے بازی کی۔بعد میں انکی نماز جنازہ پڑھائی گئی جس میں لوگوں کاجم غفیر تھا۔مذکورہ جنگجو کی ہلاکت کے بعد حاجن اور گردونواح علاقوں میں کاروبار بند ہوا اور ہر قسم کی سرگرمیاں معطل رہیں۔کئی مقامات پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔
شوکت جیل سے فرار ہوا تھا، بھائی 4سال سے بند
غلام محمد
سوپور//دانش شوکت ڈار ساکن بٹہ پورہ سوپور 19برس کا تھا۔وہ گیارہویں میں زیر تعلیم تھا جب وہ جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوگیا۔اسکے والدین کا کہنا ہے کہ دانش سرینگر سینٹرل جیل سے فرار ہوا تھا۔دانش اور اسکے دو ساتھیوں کو 6ماہ قبل دلی پولیس نے نئی دہلی میں گرفتار کیا تھا۔ ان پر 2016میں سنگبازی کا الزام تھا۔دلی سے انہیں سرینگر سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا۔دانش کے والد کے مطابق عید الفطر کے روز جب وہ سینٹرل جیل میں اس سے ملنے گئے تو انہیں بتایا گیا کہ دانش پولیس کو چکمہ دیکر فرار ہوا ہے۔انہوں نے کہا’’ ہم اس سے کئی بار جیل میں ملے تھے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وہ کہیں نظر نہیں آیا۔انکا کہنا ہے کہ دانش کو ہمیشہ ہراساں کیا جاتا رہا۔جب وہ نویں جماعت میں تھا تو اسے سنگبازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔غور طلب بات یہ ہے کہ دانش کا ایک بھائی گذشتہ 4برسوں سے سنگبازی کے الزام میں جیل میں مقید ہے۔