پیغمبر ِاسلام ؐ
مسعود محبوب خان
تاریخ کے صفحات پر کچھ ایسے مناظر ثبت ہیں جو قیامت تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انہی میں سب سے درخشاں لمحہ فتحِ مکّہ ہے۔ وہی مکّہ، جہاں کے تنگ کوچوں نے نبی رحمتؐ کو کوڑے کھاتے دیکھا، آپؐ کے جسمِ اطہر کو لہو لہان ہوتے دیکھا، وہی شہر جس نے آپؐ کو اپنی محبوب سر زمین سے بے دخل کر دیا، آپؐ کے ساتھیوں پر ظلم ڈھائے، کمزوروں کو سولی پر لٹکایا اور آگ کے انگاروں پر جلایا۔ آج وہی مکّہ آپؐ کے سامنے تھا۔ آپ فاتح کی شان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ ہزاروں کے لشکر کی تلواریں آپؐ کے ایک اشارے کی منتظر تھیں۔ دشمن، جو کل تک خون کے پیاسے تھے، آج لرزتے لبوں اور جھکی گردنوں کے ساتھ بے بس کھڑے تھے۔ اگر اس لمحے عام دنیاوی فاتح کی جگہ کوئی اور ہوتا تو انتقام کی آگ اس کے دل میں دہک رہی ہوتی اور تلواروں کا سیلاب بہا کر صدیوں کے زخم بھرنے کی کوشش کی جاتی۔مگر یہ محمدؐ تھے وہی رحمتِ دو عالمؐ، جن کے سینے میں انسانیت کے لیے بے مثال شفقت اور دریا سے بھی زیادہ گہری رحمت موجزن تھی۔ آپؐ نے اپنے دشمنوں کو دیکھا اور وہ الفاظ ادا فرمائے جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا: ’’جاؤ، آج تم پر کوئی مواخذہ نہیں، تم سب آزاد ہو‘‘ یہ الفاظ کسی عام فاتح کے الفاظ نہ تھے، یہ اُس ہستی کے کلمات تھے جسے خدا نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا۔فتحِ مکّہ کا یہ منظر دراصل یہ اعلان تھا کہ اسلام کی اصل روح محبت اور رحمت ہے۔ اگر تلوار اٹھتی بھی ہے تو وہ ظلم کے خلاف اٹھتی ہے اور جب اقتدار ہاتھ آتا ہے تو وہ دلوں کو معاف کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مؤرخین لکھتے ہیں: ’’محمدؐ فاتح بن کر مکّہ میں داخل ہوئے، لیکن اس دن کوئی خون نہیں بہا۔‘‘ دنیا کے بڑے سے بڑے فاتحین نے شہروں کو روند ڈالا، بستیاں اجاڑ ڈالیں، مگر محمدؐ کی فتح نے بربادی نہیں بلکہ نئی زندگی کو جنم دیا۔ یہ واقعہ آج بھی اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ رحمت کی طاقت تلوار کی طاقت سے کہیں زیادہ قوی ہے اور یہی وہ لمحہ ہے جس نے اسلام کو دلوں کی سلطنت عطاء کی۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ کا بڑا حصّہ تلواروں کے سایے میں گزرا۔ بدر، احد، خندق اور حنین جیسے معرکے تاریخ کا حصّہ ہیں، مگر یہ تلواریں کبھی خونخواری یا اقتدار کی ہوس کی علامت نہ بنیں بلکہ وہ رحمت اور عدل کی محافظ رہیں۔اگر یہ تلواریں نہ ہوتیں تو اسلام کے چراغ کو بجھا دیا جاتا اور اگر رحمت نہ ہوتی تو یہ تلواریں ظلم کی علامت بن جاتیں۔ مگر رسول اللہ ؐ نے دونوں کو اس طرح یکجا کیا کہ تلوار رحمت کی محافظ بن گئی اور رحمت تلوار کی رہنما۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہؐ کی زندگی میں تلوار کے سائے میں جو روشنی اٹھی، وہ صرف مدینہ کی فضاؤں تک محدود نہ رہی، وہ روشنی اندلس کے محلوں تک پہنچی، بغداد کے کتب خانوں میں جلوہ گر ہوئی اور برِ صغیر کی بستیوں کو منور کرتی رہی۔ وہ روشنی آج بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اصل عظمت تلوار کے وار میں نہیں بلکہ اس روشنی میں ہے جو تلوار کے سائے میں عدل، امن اور انسانیت کے لیے قائم کی گئی۔رسول اکرمؐ کی زندگی کا ہر لمحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جنگ کا مقصد کبھی جنگ نہیں بلکہ امن کا قیام ہے۔ تلوار کا مقصد کبھی خون بہانا نہیں بلکہ ظلم کا خاتمہ اور کمزوروں کی حفاظت ہے۔ اگر تلوار اٹھتی ہے تو وہ نفرت کے لیے نہیں بلکہ محبت کو محفوظ رکھنے کے لیے، اگر میدان جنگ سجتا ہے تو وہ تباہی کے لیے نہیں بلکہ عدل و انصاف کے چراغ جلانے کے لیے۔یہی وجہ ہے کہ جہاں دوسری قوموں کے فاتحین خون اور انتقام کی داستانیں چھوڑ گئے، وہاں رسول اللہ ؐ نے فتح مکّہ جیسے موقع پر معافی اور عفو کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ رسول اکرمؐ کی پوری حیاتِ طیبہ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اصل عظمت اس میں نہیں کہ دشمن کو زیر کیا جائے بلکہ اس میں ہے کہ دشمن کو معاف کر کے دوست بنا لیا جائے۔ اسی لیے تاریخ گواہ ہے کہ ’’رسولِ رحمتؐ تلواروں کے سائے میں بھی امن، عفو اور محبت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔‘‘
رابطہ۔ 09422724040
[email protected]