مسعود محبوب خان
دنیا کی تاریخ میں اگر کسی شخصیت کو سراپا رحمت، محبت، عفو و درگزر اور انسان دوستی کا حقیقی مظہر کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف سیّد المرسلین ؐکی ذات اقدس ہے۔ قرآن نے آپؐ کو وہ بلند ترین خطاب عطا فرمایا جو کسی اور بشر کو نصیب نہ ہوا: ’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ‘‘ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ یہ اعلان اس بات کا اعلان تھا کہ آپؐ کی زندگی انسانیت کے ہر گوشے کے لیے محبت، خیر، برکت اور روشنی کا سر چشمہ ہے۔لیکن تعجب خیز حقیقت یہ ہے کہ اس ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کی حیاتِ طیبہ مسلسل تلواروں کے سائے میں گزری۔ غزوۂ بدر، احد، خندق اور حنین کے میدان، ہجرت کے کٹھن مراحل، دشمنوں کی ریشہ دوانیاں اور مکّہ و مدینہ کی سنگین سازشیں۔ یہ سب تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہےکہ اگر آپؐ رحمت اور محبت کے پیکر تھے تو یہ تلواریں کیوں اٹھیں؟ اور پھر ان تلواروں کی چمک میں بھی رحمت و شفقت کے انوار کیسے جھلکتے رہے؟اس سوال کا جواب دراصل انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سبق میں پوشیدہ ہے۔ رسول اکرمؐ نے کبھی تلوار کو اپنی دعوت کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ تلوار صرف اس وقت اٹھائی گئی جب دشمنانِ حق نے مظلوموں کا خون بہایا، حق کو کچلنے کی کوشش کی اور ظلم و جبر کو نظامِ حیات بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ گویا تلوار مظلوم کی ڈھال تھی، ظالم کے ہاتھ کو روکنے کا وسیلہ تھی، قرآن نے خود اعلان کیا: ’’ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو جائے۔‘‘یہاں بھی مقصد فتحِ زمین یا اقتدار کا حصول نہ تھا بلکہ انسان کو ظلم و جبر کی زنجیروں سے آزاد کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معرکے میں آپؐ کا کردار محض ایک فاتح سپہ سالار کا نہیں بلکہ ایک شفیق مربی کا تھا۔ بدر کے قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک، فتح مکّہ پر عام معافی کا اعلان، طائف کے سنگ باری کرنے والوں کے لیے بددعا کے بجائے دعا، یہ سب اس بات کی شہادت ہیں کہ تلوار کی نوک پر بھی آپ ؐکا دل رحمت اور محبت سے لبریز تھا۔ اگر آپؐ صرف فاتح ہوتے تو تاریخ میں آپ کی پہچان تلوار کے واروں سے ہوتی، لیکن آپ کا نام آج بھی رحمت و محبت کے ساتھ زندہ ہے۔ آپؐ نے تلوار کو خون بہانے کے لیے نہیں بلکہ خون بچانے کے لیے استعمال کیا۔ آپؐ نے جنگ کو مقصد نہیں بلکہ آخری علاج (Last Resort) کے طور پر اختیار کیا اور پھر بھی جب کبھی میدان جنگ میں آپؐ کو غصّے کا موقع ملا، وہاں بھی عفو و درگزر کا چراغ جلایا۔
یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم مؤرخین نے بھی اعتراف کیا کہ ’’محمدؐ کی تلوار نے کبھی دلوں کو مجبور نہیں کیا بلکہ دلوں کو آزاد کیا۔‘‘ آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں رحمت اور تلوار کا حسین امتزاج دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ حقیقی امن صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب ظلم کا قلع قمع کیا جائے اور حقیقی محبت اسی وقت محفوظ رہتی ہے جب مظلوموں کو سہارا دیا جائے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ رسولِ رحمتؐ کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر تھی: ’’ اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان کے لیے نرم دل ہیں‘‘ اور یہی نرم دِلی تلواروں کے شور میں بھی اپنا رنگ دکھاتی رہی۔رسول اکرمؐ کی بعثت کا آغاز اُس شہر میں ہوا جس کی وادیاں سکون و اطمینان کا پتہ دیتی تھیں، جہاں خانۂ کعبہ کے سائے میں لوگ اپنی قدیم روایات اور رسم و رواج پر فخر کرتے تھے۔ مکّہ کی فضائیں اپنے ظاہر میں پُرامن نظر آتی تھیں، مگر اس امن کے پردے کے پیچھے ظلم و جبر، طبقاتی تفاوت، معاشرتی ناانصافیاں اور مذہبی جمود کی ایک اندھیری دنیا آباد تھی۔ ایسے ہی ماحول میں نبی رحمتؐ نے اعلانِ توحید کیا۔ یہ اعلان کسی تلوار کی جھنکار کے ساتھ نہیں تھا، نہ کسی زبردستی کے نعرے کے ساتھ، بلکہ ایک نرم صدا تھی جو دلوں کی گہرائیوں کو چھو لیتی تھی: ’’لا الٰہ الا اللہ کہو اور فلاح پاؤ‘‘ یہ پیغام محبت، اخوت، مساوات اور عدل کا تھا۔ ایک ایسا پیغام جس میں کمزور اور طاقتور، آقا اور غلام، امیر اور غریب سب ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے۔ یہی مساوات قریش کے سرداروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئی۔یہی وجہ تھی کہ دشمنوں کی تلواریں مکہ سے چل کر مدینہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتی رہیں۔ بدر، احد اور خندق کے میدان اس بات کی شہادت ہیں کہ دشمن نے ہر قدم پر رسول ِ رحمتؐ کی دعوت کو خون سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ ان تلواروں کی جھنکار میں بھی نبی اکرمؐ کا دل رحمت سے خالی نہ ہوا۔ بدر کے قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک، احد کی وادی میں زخمی حالت میں بھی امت کے لیے دعا، اور فتح مکّہ کے دن عام معافی کا اعلان۔ یہ سب اس حقیقت کو روشن کر دیتا ہے کہ مکّہ سے مدینہ تک کا سفر صرف ہجرت نہیں بلکہ رحمت، صبر، استقامت اور انسان دوستی کا سفر تھا۔
مدینہ کی بابرکت سر زمین پر جب اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا مقصد نہ تو زمینوں پر قبضہ تھا، نہ طاقت کی نمائش اور نہ کسی قوم کو زیر کرنا۔ اس ریاست کی اساس قرآن کے اس اعلان پر تھی کہ’’ دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ لیکن دشمنانِ اسلام یہ برداشت نہ کر سکے۔ وہی قریش جنہوں نے مکّہ میں کمزوروں کو جلتی ریت پر لٹایا تھا، وہی سردار جو توحید کی آواز کو دبانے کے لیے دن رات سازش کرتے تھے، انہوں نے مدینہ پہنچ کر بھی سکون نہ لینے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنگیں مسلّط کی گئیں۔ بدر، احد، خندق، حنین، یہ سب معرکے دراصل دشمن کے حملوں کے جواب میں تھے۔ مقصد دفاع تھا نہ کہ جارحیت۔ مسلمان تلوار اس وقت اٹھاتے جب مظلوموں کی جان بچانا مقصود ہوتا اور عدل کے چراغ کو بجھنے سے بچانا ہوتا۔لیکن ان جنگوں میں بھی رسول اکرمؐ کی ذاتِ اقدس نے دنیا کو حیران کر دینے والے اصول عطاء کیے۔ آپؐ نے لشکر کو روانہ کرتے وقت جو ہدایات دیں، وہ تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف سے لکھی ہوئی ہیں:’’عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، بچّوں کو نقصان نہ پہنچاؤ، بوڑھوں کی جان نہ لی جائے۔نہ درخت کاٹو، نہ کھیت جلاؤ، نہ باغ اجاڑو۔
عبادت گاہوں میں جو لوگ گوشہ نشین ہیں، انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔دشمن کے قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، انہیں کھانا دو، پانی دو اور عزّت کے ساتھ رکھو۔‘‘
یہ وہ اُصول تھے جو اس وقت کی جنگی تہذیب سے بالکل مختلف تھے۔ دنیا میں اس سے پہلے جنگ کا مطلب قتل و غارت، لوٹ مار، زمین جلانا اور بستیاں ویران کرنا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رسول رحمتؐ نے میدانِ جنگ کو بھی انسانیت کے احترام کا درسگاہ بنا دیا۔(جاری)
رابطہ۔ 09422724040